ہار کو خندہ پیشانی سے قبول کرنا …اسے تسلیم کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے… بالکل بھی نہیں ہے ۔یہ بڑے دل گردے کا کام ہے جو ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے… بالکل بھی نہیں ہے … اپنے گورے گورے بانکے چھورے‘ عمرعبداللہ کے بس کی بھی بات نہیں ہے۔بارہمولہ میں ان جناب نے انجینئر رشید کے ہاتھوںہار کا ہار کیا پہنا کہ ان جناب کی عقل کہیں رخصتی پر چلی گئی ہے …اور جب کسی انسان کی عقل رخصتی پر چلی جاتی ہے تو… تو وہ آپے سے باہرہوتا ہے اور… اور اپنے گورے گورے بانکے چھورے بھی آپے سے باہر ہوگئے اور… اور انجینئر صاحب کی جیت کو کشمیر میں ’شکست خوردہ‘ اسلامی تحریک کیلئے قوت بخش قرار دیا ۔’شکست خوردہ‘ حق خود ارادیت کی تحریک کب اور کیسے’ اسلامی تحریک‘ میں بدل گئی یہ ہم نہیں جانتے ہیںکہ… کہ جب عمرعبداللہ وزیر اعلیٰ تھے …یاان سے پہلے ان کے والد بھی وزیر اعلیٰ تھے ‘ تو تب کبھی بھی… جی ہاں کبھی بھی عمر صاحب یا ان کے والد نے کشمیر کی تحریک کو اسلامی تحریک نہیں قرار دیا… انہوں نے اسے پاکستان اعانت یافتہ در پردہ جنگ اور دہشت گردی قرار دیا لیکن… لیکن اللہ میاں کی قسم اسے کبھی اسلامی تحریک نہیں کہا… بالکل بھی نہیں کہا… اب انجینئر صاحب کے جیت جانے سے یہ اسلامی تحریک کیسے بن گئی … اگرآپ کی سمجھ میں یہ بات آگئی ہے تو… تو پلیز ہمیں بھی سمجھائیے ۔لیکن… لیکن صاحب ہمیں عمر صاحب سے کوئی گلہ شکوہ نہیں ہے اور… اور اس لئے نہیں ہے کہ انجینئر صاحب نے انہیں زور کا جھٹکا دیا ہے… وہ بھی دھیرے سے نہیں بلکہ زور سے ۔ہم عمر صاحب کو یہی مشورہ دیں گے کہ جناب جو ہوا سو ہوا… کہ ہار جیت زندگی کا ایک لازمی حصہ ہیں… آج آپ ہار گئے ‘ کل جیت بھی جائیں … جب آپ جیت جائیں گے تو… تو لوگ بھول جائیں گے … سو فیصد بھول جائیں گے کہ … کہ آپ کبھی ہار بھی گئے تھے… آپ کو انجینئر صاحب نے ہرابھی دیا تھا … لیکن… لیکن آپ کے منہ سے نکلی بات لوگ بھول نہیں جائیں گے… اس لئے آپ خاموش رہیے‘ اگر آپ خاموش نہیں رہ سکتے تو… تو آپ بھی سجاد لون کی طرح چھٹی پر جائیے… اُس سجاد لون کی طرح جس کی انتخابات میں یوں سمجھ لیجئے کہ ضمانت بھی ضبط ہو گئی… تقریباً ہو گئی … آپ کو تو پھر بھی ووٹ ملے… وہ بھی سینکڑوں اور ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں ۔ ہے نا؟