زمینی حقائق، کچھ چبھتے سوالات اور کشمیرکے مخصوص سیاسی پس منظراور پیش نظر محسوس کئے جارہے معاملات اور نظروں کی گہرائی کا اعتراف کرنے اور سب سے بڑھ کر اپنے آپ کو اس سارے منظرنامے کے حوالہ سے ٹٹولنے کی دیانتدارانہ کوشش کی بجائے طعنہ زنی ، کردارکشی اور’اب میں ہوں‘ کا راستہ اختیار کرکے لنگڑے اور بے وزن دلائل کا سہارا لینا احمقانہ سوچ کا ہی غماز قرار دیا جاسکتا ہے۔
ہمارا دعویٰ ہے کہ آئین اور جمہوری طرزعمل تحریر تقریر کی آزادی کی تحریک بھی دے رہا ہے اور ضمانت بھی، لیکن جب اپنا کوئی مخالف اسی آزادی کے حق کا استعمال کرتے ہوئے گردوپیش میںمعاملات اور محسوس یا غیر محسوس طور سے کچھ سوالات کوزبان دینے کی کوشش کرتا ہے تو اُس کی اس آزادی کو برداشت نہیں کیاجاتا ہے۔ لنگڑی دلیلیں، بے ہنگم اور بے وزن منطقوں کے ساتھ جوابی حملہ آور ہونے کا راستہ اختیار کرکے اپنی اختراعی بڑھائی یا بالادستی کے تراشے بتوں کا سہارا لیاجاتا ہے۔
بارہمولہ پارلیمانی حلقے سے سابق آزاد اسمبلی رکن انجینئر رشید کی کامیابی اور سابق وزیراعلیٰ عمرعبداللہ کی شکست اب ایک لکھی اور تاریخی حقیقت ہے آئینی اور قانونی اعتبار سے اس جیت اور شکست کو اپنے اپنے اعتبار سے اعتباریت اور سند قبولیت بھی حاصل ہے بلکہ ناقابل چیلنج بھی، لیکن لوگوں کو اس جیت اور اس شکست کے بارے میں زمینی حقائق اور کچھ چبھتے سوالوں کے تناظرمیں بات کرنے، اپنی آرا کو زبان دینے اور مختلف تاویلات کا جامہ پہنانے کی کیا آزادی حاصل نہیں؟ کیا انہیں اپنی آراء کو زبان دینے سے روکنے کا آئینی اورقانونی اختیار کسی کو حاصل ہے، ہاں البتہ اس نوعیت کے اظہار پر مختلف حلقوں کی طرف سے تنقید کی آڑمیں جو جواب دیا جارہا ہے وہ جواب بھی غور طلب بن ہی جاتا ہے۔
اس چبھتے سوال کا ابھی تک کسی معقول یا نامعقول سیاسی حلقے کی طرف سے کوئی تسلی بخش جواب یا معقول ردعمل سامنے نہیںآیا کہ کیوں عین اُس وقت جب پارلیمانی الیکشن کا بگل بجایا جارہا تھا کشمیرنشین بعض سیاسی حلقوں کی جانب سے ایک ممنوعہ نیم مذہبی اور نیم سیاسی جماعت سے وابستہ قیادت اور اس کے کارکنوں کو اپنی صف میں شامل کرنے کی نہ صرف دعوت اور ترغیب دی جاتی رہی بلکہ کچھ ایک لیڈروں کے گلے میں ہار پہنا کر اپنی صفوں میںشامل بھی کرلیا۔ یہ سب کچھ اس حقیقت کے باوجود ہوتا رہا کہ حکومت اس جماعت کو علیحدگی پسند نظریات، دہشت گردی کی معاونت اور اس حوالہ سے منی لانڈرنگ کے الزامات میں نہ صرف ممنوعہ قرار دے چکی ہے بلکہ اس تنظیم اور اس جیسے نظریات کے حامل دوسرے کئی لوگوں کی جائیدادوں، اثاثوں اوراملاک کو بحق سرکار مختلف قوانین کے تحت سربہ مہر کرچکی ہے جن حکومتی اقدامات کی تائید متعلقہ ٹریبونل بھی کرچکاہے بعض سیاسی جماعتوں کی طرف سے دعوت نامہ پیش کرنا اور پھر اس پر عمل کرنا کیا کسی نئی سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے یاکسی نئی حکمت عملی کا تانا بانا …؟
اگر کشمیر نشین کسی سیاستدان نے محض علامتی یا خدشے کے حوالہ سے ہی اس نئے اُبھرتے منظرنامہ پر اپنے خیالات کا اظہار کیا تو اُس پر سیخ پا ہونے کا جواز کیا؟بجائے اس کے کہ ان خیالات پر ٹھنڈے دل سے غوروفکر کیاجائے اور جوسوالات چاہئے خدشے کے طور ہی سہی کئے جارہے ہیں ان کا معقول اور حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرکے مدلل جواب دیا جائے کوئی اورہی راستہ اختیار کیاجارہاہے ۔
مثلاً کہا جارہا ہے کہ یہ ۱۹۸۷ء کے مشکوک الیکشن ہی تھے جس نے علیحدگی پسند ی کوجنم دیا جو تباہی وبربادی اور ہلاکتوں کا موجب بنا جوفی الوقت بھی جاری ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ۱۹۸۷ء کے الیکشن مشکوک نہیں تھے بلکہ مسلمہ حقیقت یہ ہے کہ وہ الیکشن فراڈ سے سراپا عبارت تھے، لہٰذا جب بھی کوئی بات کرنی ہویا کسی دلیل کا جواب کے طور سہارا لینا ہوتو تقاضہ یہی ہونا چاہئے کہ ریکارڈ صاف صاف بلکہ تاریخی حقائق میںپیش کرنے کی سعی کی جانی چاہئے۔
بے شک ۸۷ء کے فراڈ الیکشن کے بعد کشمیر کے طول وارض میں سیاسی اور عسکری سطح پر تحریکیں برپا ہوئی جن تحریکوں نے کشمیرکی نوجوان نسل کے زائد از ایک لاکھ نوجوان اپنی قیمتی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، دس ہزار سے زائد حراستی گمشدگیوں کی نذر ہوئے، لاکھوں کی تعداد میں بیوائیں ، یتیم بچے اور خاندانوں کے خاندان کفالتوں سے محروم ہوگئے، بستیوں کی بستیاں اجڑ گئیں، آج بھی ان تحریکوں کے زخموں سے رِس بہہ رہا ہے ،بدقسمتی یہ ہے کہ آج ماضی کے انہی لگے زخموں کے تناظرمیں کوئی بات کررہاہے تواس کو شکست کی نانی تو یاد کرائی جارہی ہے لیکن یاد کرانے والے ان تحریکوں کے دوران خود اپنے رول ، کردار اور عملی شراکت داری کوکیوں یادنہیں کررہے ہیں۔ انہیں یہ بھی غالباً یاد نہیں کہ اُسی دورمیں جب راجیو گاندھی کی قیادت میں ایک پارلیمانی وفد کشمیر آیا تو ملاقات کے دوران ایک ملاقاتی نے اپنے علیحدگی پسند جذبات کا اظہار کرتے ہوئے اپنے دائیں ہاتھ پر گھڑی کی سوئیوں کی طرف اشارہ کیا اور راجیو گاندھی سے مخاطب ہوتے کہا کہ یہ پاکستانی ٹائم ہے۔ یہ بھی یاد نہیں کہ جو کفن بردوش چند افراد سڑکوں پر نمودار ہوئے تھے ان کفن بردوشوں میں انجینئر رشید کی پارٹی کی صف میں آج کی تاریخ میں موجود ایک شخص وہ بھی تھا۔ کشمیر کی جس تباہی وبربادی کا لنگڑا استدلال کا راستہ اختیار کرکے حوالہ دیاجارہا ہے اُس تباہی وبربادی کا وہ خود بھی کردار اداکرچکے ہیں۔
یاد ماضی عذاب ہے یارب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا‘ حافظہ نہ چھین لیاجاسکتا ہے اور نہ چھن سکتا ہے ۔ یہ زندگی کا لازم وملزوم حصہ بن جاتا ہے۔ البتہ فرق صرف یہ ہے کہ اس ماضی کو آئندہ مستقبل کے لائحہ عمل مرتب کرنے یا روڈ میپ اختیار کرنے کیلئے اس ماضی کو بطور سبق اور عبرت کے طور ملحوظ خاطر رکھا جائے۔ جوسوال عمرعبداللہ اُٹھارہا ہے اس کاتعلق بادی النظرمیںان کی شکست یا جیت سے نہیں، وہ اپنی شکست حتمی نتائج آنے سے قبل ہی تسلیم کرچکے تھے اور اپنے مد مقابل کامیاب اُمیدوار کی جیل سے فوری رہائی کا بھی مطالبہ کرچکے ہیں۔
سوال صرف عمر نہیں کررہاہے بلکہ کشمیر میں سول سوسائٹی سے وابستہ دانشور طبقہ، مفکرین ، حالات واقعات پر قریب ترین نگاہ رکھنے والے صاحب فکرو بصیر، سنجیدہ اور حساس عوامی اور سیاسی حلقے بھی کررہے ہیں کہ کیا یہ ممکن ہے کہ اس تعداد میں لوگوںنے محض اظہار یکجہتی کے جذبے سے مغلوب ہوکر اپنے حق رائے دہی کا استعمال کیا؟ انجینئر خود کب ان چودہ اسمبلی حلقوں میں جاتے رہے اور لوگوں سے حمایت حاصل کرتے رہے، ایسا ہوتا تو انجینئر رشید ان مخصوص اسمبلی حلقوں سے اپنی پارٹی کے اُمیدوار الیکشن میدان میں اُتارتے، پھر اہم سوال یہ بھی ہے کہ اظہار یکجہتی کے طور ووٹ ڈالنے والے کون ہیں، اگرواقعی ایسا ہی ہے توگذرے چار پانچ سال کے دوران کیا کبھی کسی ایک بھی مرحلہ پر وہ اپنے لیڈر کی نظربندی کے خلاف سڑک پر نظرآئے؟ اس سارے بحث میںمحبوبہ مفتی کی قیادت میں پی ڈی پی کا ایک لیڈر بھی میدان میں اُتر آیا ہے، جو حیران کن نہیں کیونکہ خود اس کی پارٹی ماضی قریب میں ایسے ہی اظہار یکجہتی کے جذبات سے مستفید ہوتی رہی ہے۔