کولکاتہ// ڈیوڈ ملر ٹی 20 کرکٹ میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ایک ایسے فنشر کا کردار جو گیندبازی ہی نہیں کرتا۔ اس طرز کے کھلاڑیوں کو کامیابی سے زیادہ مایوسی ہاتھ لگتی ہے۔
آپ کو تجزیہ کاروں کو متاثر کرنے والے بڑے رن بنانے کا موقع نہیں ملتاہے۔ مزید یہ کہ اگر آپ غیر ملکی لیگز میں کھیلتے ہیں تو الیون میں جگہ بنانا مشکل ہو جاتا ہے۔
ملر نے اپنے پورے کیریئر میں اور خاص طور پر اپنی پچھلی فرنچائزی میں، جسے ہراکر انہوں نے آئی پی ایل 2022 کے فائنل میں جگہ بنائی، اس بات کو قریب سے دیکھاہے۔ سیزن کے آغاز سے پہلے، ملر نے کرک انفو کے میٹ رولر کو بتایاتھا کہ ایک مشکل کردارمیں مسلسل نہ کھیل پانا کتنا مایوس کن تھا۔
جنوبی افریقہ کے اس بلے باز نے کہا، ’’(مسلسل نہ کھیل پانا) مایوس کن تھا۔ راجستھان کے پاس اس کے چار بڑے غیر ملکی کھلاڑی ہیں اور وہ ان پر قائم رہنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ چندبرسوں میں مسلسل نہ کھیل پانا میرے لئے مایوس کن تھا۔ وقت کے ساتھ، میں نے سیکھا ہے کہ ٹیم سے باہر ہونے پر منھ پھلانے سے اچھاہے کہ میں اپنے کھیل پر کام کروں۔ بات ٹیم کے اردگرد مثبت رہنے کی ہے۔ میں نئی ٹیم (گجرات ٹائٹنز) کے بارے میں بہت پرجوش ہوں۔ یہ ایک نئی شروعات ہے اور میں وہاں اپنا نشان چھوڑنا چاہتا ہوں۔”
وہ راجستھان رائلز پر طنزیہ تیر نہیں چلا رہے تھے۔ جوس بٹلر، جوفرا آرچر اور بین اسٹوکس الیون میں ہوں تو ٹیم میں جگہ بنانا قطعی آسان نہیں ہوتا۔ ملر کنگز الیون پنجاب کے لیے اپنے پہلے سیزن میں ہٹر بن ابھرے تھے لیکن اب وہ ایک مکمل بلے باز بن گئے ہیں۔ اپنے پالے میں ملنے والی گیندوں کووہ میدان سے باہر بھیجتے تھے لیکن وقت کے ساتھ ٹی ٹوئنٹی ٹیموں نے گیند کو ان کی پہنچ سے دور رکھنا شروع کر دیا۔ اس کے باوجود آٹھ سال بعد اپنے آئی پی ایل کیرئیر کی بہترین کارکردگی کرنا قابل ستائش ہے۔ ملر کے مطابق یہ سب اس کی حمایت کا نتیجہ ہے۔