مئی میں اتنی گرمی تو نہیں ہوتی تھی جتنی اب کی بار ہے…گرمی کی جس لہر کی بات ہو رہی ہے ‘ یہ لہر تو جولائی اگست میں ہوا کرتی تھی… کم از کم کشمیر میں تو مئی میں ایسی گرمی نہیں ہوا کرتی تھی… لیکن نہ جانے اب کی بار ایسا کیا ہو ا ہے کہ سورج آگ اگل رہا ہے… مئی میں ہی اگل رہا ہے… کوئی وجہ تو ہو گی اور… اور ضرور ہو گی… لیکن پلیز ہمیں یہ نہیں بتائیے کہ اس کی وجہ گلوبل وارمنگ ہے… ہم اس بات کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں کہ … کہ ہمارا جاننا اور ماننا ہے کہ سورج اس لئے آگ اگل رہا ہے … مئی میں اگل رہا ہے کیونکہ نیچے زمین پر ‘ اس دھرتی پر سیاستدان آگ اگل رہے ہیں… اور اس لئے اگل رہے ہیں کہ بھارت دیش میں الیکشن جو ہو رہے ہیں… یہ ان سیاستدانوں کے منہ سے اگلنے والی آگ کا نتیجہ ہے کہ اوپر سورج بھی آگ اگل رہا ہے …پسینے پسینے ہو رہا ہے۔ ورنہ مئی تو ہمارے پسندیدہ مہینوں میں سے ایک ہے … جس میں گرمی ہوا کرتی تھی اور نہ سردی… لیکن صاحب اب کے تو یہ کسی اور ہی روپ میں جلوہ گر ہوا ہے … لیکن… لیکن خطا اس کی بھی نہیں ہے کہ… سیاستدانوں کے منہ سے جو آگ نکل رہی ہے اس کی تپش یقینا سورج بھی محسوس کررہا ہو گا…اس آگ کا مقصد یوں تو اپنے حریفوں… سیاسی حریفوں کو بھسم کرنا ہے… جلا کر راکھ کردینا ہے… لیکن جل بھن عام لوگ ہو رہے ہیں… جن کیلئے یہ گرمی برداشت سے باہر ہو رہی ہے کہ… کہ یہ عام لوگ ہیں… سیاستدان نہیں جنہیں اپنا ووٹ ڈالنے کیلئے جھلستی دھوپ میں پیدل چل کر پولنگ مراکز تک جانا پڑتا ہے اور… اور وہاں ایک لمی قطار میں اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے… سیاستدانوں کا کیا کہ وہ ایئر کنڈشنڈ گاڑی میں پولنگ بوتھ پر آتے ہیں اورکسی قطار میں کھڑا ہو ئے بغیر سیدھا پولنگ بوتھ میں گھس کر اپنا ووٹ ڈال کر نو دو گیارہ ہو تے ہیں …خیر ہمیں یقین ہے کہ… کہ آئندہ کچھ دنوں میں سورج آگ اگلنا بند کردے گا اور… اور گرمی کی اس لہر سے لوگوں کو راحت ملے گی اور… اور اس لئے ملے گی کیونکہ کچھ دنوں میں الیکشن کا آخری مرحلہ بھی مکمل ہو جائیگا اور… اور اس کے بعد سیاستدانوں کے منہ بند ہوجائیں گے … وہ آگ اگلنا بند کر دیں گے … وہ پھر سے بھائی بھائی بن جائیں گے اور… اور ہم بھی ایک ٹھنڈی سانس لے سکیں گے … اور ہاں سورج بھی۔ ہے نا؟