دہشت گردی اور پتھرائو میں ملوث افراد یا حمایتوںکے قریبی رشتہ داروں کو سرکاری ملازمت میں نہیں لیاجائے گا۔ اس کا اظہار وزیرداخلہ امت شاہ نے کیا ہے ۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’’کشمیر میں ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اگر کوئی دہشت گرد تنظیم میں شامل ہوتا ہے توا س کے اہلخانہ کوکوئی سرکاری نوکری نہیںملے گی۔ کوئی پتھربازی میں ملوث ہوتا ہے تو اس کے اہل خانہ کو بھی سرکاری نوکری نہیں ملے گی۔ کچھ انسانی حقوق کے کارکن اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ گئے لیکن آخر میں حکومت جیت گئی ‘‘۔
وزیرداخلہ کا یہ بیان کشمیر کے حوالہ سے کوئی نیانہیں بلکہ اس حوالہ سے بہت پہلے سے عملی جامہ پہنانے کا طریقہ کار جاری ہے۔ صرف اسی حد تک نہیں بلکہ سرکاری ملازمتوں میں پہلے سے موجود متعدد ملازمین کو بھی ’ایکو سسٹم‘ کا پرزہ قرار دے کر برخاست کیاجاچکا ہے۔ وزیرداخلہ کا یہ بیان عین اُس وقت سامنے آیا جب جموںوکشمیرہائی کورٹ نے ایک رٹ پٹیشن پر فیصلہ دیتے ہوئے چیف سیکریٹری کو ہدایت دی کہ وہ ایک سابق کمشنر سیکریٹری رورل ڈیولپمنٹ اور پنچایتی راج کے خلاف کارروائی کی ایکشن رپورٹ عدالت کے ربروپیش کرے جس نے پٹیشنروں کو ٹھیکے الاٹ کرنے سے اس بنا پر انکار کردیا کہ ان کے رشتہ دار ماضی میں ملک دُشمن سرگرمیوں میںملوث رہے ہیں ۔
جسٹس سنجیو کمار پر مشتمل بینچ نے اس حوالہ سے کہا ہے کہ سابق کمشنر کا یہ فیصلہ حکومت کی اُس پالیسی کی ضد ہے جس کا تعلق گمراہ کن افراد کو قومی دھارے میں شریک بنانے سے ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میںیہ واضح کیا ہے کہ پٹیشنروں کے تعلق سے سی آئی ڈی رپورٹ واضح ہے کہ وہ کسی ملک دُشمن سرگرمیوں میں ملوث نہیں رہے ہیں۔لہٰذا کمشنر کا یہ فیصلہ ملکی آئین کی دفعہ (G)(1)۱۹؍ کے سراسر خلاف ہے۔کسی بھی شخص کو محض اس بنا پر کہ اس کا کوئی لواحق یا رشتہ دار ماضی میںملک دُشمن سرگرمیوں سے وابستہ رہا ہے جائز روزگار سے محروم نہیں کیا جاسکتا ہے جبکہ رجسٹریشن آف کنٹریکٹرس ایکٹ کے تحت بھی پٹیشنر کسی خلاف ورزی کے مرتکب نہیں پائے گئے ہیں۔
ظاہر ہے حکومت ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو یونہی نہیںلے گی اور نہ ہی حاشیہ پر رکھتے ہوئے خاموشی اختیار کرے گی۔ حکومت عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرے گی اور فیصلے کے پیچھے مقاصد، عوامل اور محرکات کو پیش کرکے عدالت سے اپنے فیصلے کے حق میں راحت حاصل کرنے کی کوشش ضرور کرے گی۔
البتہ مرکزی وزیرداخلہ کے اس تعلق سے بیان کے اعادہ کی روشنی میں جموںوکشمیر نشین کچھ سیاسی جماعتوں کے پہلے سے اعلانات باالخصوص پارلیمانی الیکشن کی گہما گہمی کے دوران دیئے گئے بیانات بھی اب عوامی حلقوں کی توجہ کا مرکز بن رہے ہیں۔ پیپلز کانفرنس کے سجاد غنی لون، اپنی پارٹی کے سید الطاف بخاری اور سابق وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد کی جانب سے یہ اعلانات اور بیانات کہ وہ اگر اقتدارمیں آتے ہیں تو ایف آئی آر کا کلچرختم کردیاجائے گا، قیدیوں کو رہا کرایا جائے گا اور سیاسی نظریات کی بنیاد پر کسی کو گرفتار نہیںکیاجائے گا کے تناظرمیں معاملہ اور بھی نہ صرف زیادہ اہمیت کا حامل بن رہا ہے بلکہ عوامی سطح پر انہی پارٹیوں سے یہ سوال بھی ہورہاہے کہ کچھ سابق جنگجو ان کی اپنی صف میں موجود ہیں اورتائب ہوکر قومی دھارے میں شامل ہوکر قومی دھارے کا حصہ ہی نہیں بن چکے ہیں بلکہ ماضی قریب میں ان میں سے کئی الیکشن پراسیس کا حصہ بن جانے کے بعد وزارتی عہدوں پر بھی فائز رہے ہیں کو نہ صرف خودچھوٹ عطاکی گئی ہے بلکہ ایکو سسٹم کی اصطلاح میںان کے لواحقین اور رشتہ داربھی اب کسی خلاف کارروائی سے مستثنیٰ قرار پاچکے ہیں کی روشنی میں آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہوگا؟
اب جبکہ خود حکومت کااعتراف بھی ریکارڈ پر ہے کہ دہشت گرد ی دم توڑ چکی ہے، کشمیرمیں امن قائم ہوگیا ہے ، لوگ معمول کی زندگی بسر کررہے ہیں، ترقیاتی منظرنامہ ہرسو دکھائی دے رہا ہے ، سیاحوں کی ریکارڈ توڑ آمد بھی ہے، سیاسی سطح پر سرگرمیوں کی بہار ہے تو ماحول اور منظرنامہ کواور زیادہ قومی دھارے سے ہم آہنگ کرنے اور خود سرکاری سطح پر ترتیب دی گئی پالیسی کہ گمراہ کن افراد کو قومی دھارے کا حصہ بناکر ان کی باز آبادکاری کویقینی بنایا جانا چاہئے کی روشنی میں بھی پارٹیوں اور مرکز کے درمیان سنجیدہ مشاورت وقت کا تقاضہ بن رہا ہے تاکہ وسیع ترمفادات اور وسیع تر تناظرمیں ایک ٹھوس اور قابل عمل روڈ میپ کو ترتیب دیاجاسکے۔
البتہ ایسا کوئی روڈ میپ ترتیب دیتے وقت اس بات کو واضح کرنا ناگزیر بن جاتا ہے کہ بندوق اُٹھانے والا اگر دہشت گردی کے زمرے میں شمار ہوتا ہے تو آئین کی بالادستی کو تسلیم نہ کرکے چیلنج کرنے والے کو کس زمرے میں رکھا جاسکتا ہے۔ بندوق اُٹھا کر دہشت گرد سرگرمیوں میں ملوث ہونے والا فورسزکے ساتھ جھڑپ میں گر کر اپنا قصہ ختم کردیتا ہے لیکن مخصوص آئیڈیالوجی کے حامل افراد یاان پر مشتمل جماعت کسی نہ کسی حوالہ سے خود کو زندہ اور سرگرم رکھتے ہوئے اپنا وجود برقرار رکھتی ہے۔ ان دونوں کے درمیان اس واضح فرق کو پالیسی اور آئندہ روڈ میپ کا لازمی حصہ بنانے کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔
کشمیر کو بحیثیت مجموعی اس مخصوص صورتحال کاہی سامنا نہیں ہے بلکہ اور بھی کئی معاملات اور مسائل سے اوسط کشمیری گھرانہ اب ایک مدت سے جھوج رہا ہے۔ معاشرتی سطح پرا س کے ذیلی اثرات مرتب ہورہے ہیں جو اب سنگین مضمرات کا موجب بھی بن رہے ہیں ۔ ان میں برین ڈرین (Brain Drain)ایک سنگین معاشرتی مسئلہ کے طور اُبھر رہا ہے۔دیرپا روزگار کا حصول ہر گذرتے ایام کے ساتھ گھٹ رہا ہے اور سکڑتا جارہاہے لہٰذا اعلیٰ تعلیم یافتہ، ہنرمند اور زندگی کے دوسرے شعبوں سے وابستہ نوجوان طبقہ قابل اعتماد روزگار کی تلاش کی غرض سے ملک سے باہر جانے کا خواہاں ہے لیکن پاسپورٹ حاصل کرنے میں انہیں دشواریوں اور رکاوٹوں کا سنگین مسئلہ درپیش ہے۔
جو نوجوان لڑکے لڑکیاں سرکاری ملازمت کے حصول کی دوڑسے باہر ہورہے ہیںمعاشرتی سطح پر اس کے سنگین مضمرات مرتب ہورہے ہیں اور کشمیرمیںاس پالیسی کے ردعمل میںکسی نئے پنڈورا بکس کے کھل جانے کے امکانات روشن ہوتے جائینگے۔ کشمیر کی سیاسی جماعتیں اپنے اپنے موقف اور نظریوں کے حوالوں سے جدا جُدا ہے لیکن کچھ معاملات ایسے بھی ہیں جن پر یہ آپس میں مشاورت کرکے حال اور مستقبل کے تعلق سے کوئی متفقہ لائحہ عمل وضع کرسکتی ہیں۔ سوال تباہی کے ہوتے مزید تباہی کو دعوت دینا یا مزید تباہی کے لئے میدان ہموار کرنے سے حاصل تباہی ہی ہوگی، یہ راستہ وسیع تر قومی مفادات سے ہوکر نہیں گذرتا اور نہ ہی صحت مند خطوط پر معاشرے کی تشکیل ممکن ہوسکے گی۔