نئی دہلی/۲۲ مئی
الیکشن رائٹس باڈی ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) کی جانب سے شیئر کیے گئے اعداد و شمار کے تجزیے کے مطابق لوک سبھا انتخابات میں حصہ لینے والے امیدواروں میں ۱۰ فیصد سے بھی کم خواتین ہیں۔
جن۸۳۳۷؍ امیدواروں کا تجزیہ کیا گیا، ان میں سے صرف ۷۹۷خواتین ہیں، جو انتخابات کے سات مرحلوں میں مقابلہ کرنے والے کل امیدواروں کا صرف۵ء۹فیصد ہیں۔
لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں میں خواتین کیلئے ایک تہائی نشستیں ریزرو کرنے کیلئے خواتین ریزرویشن بل کی منظوری کے بعد یہ پہلا انتخاب ہے، جس میں پارٹیوں کے درمیان اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے ۲۷سال سے زیر التوا بل کو بحال کیا گیا ہے۔ یہ بل ابھی نافذ العمل نہیں ہوا ہے۔
انتخابات کے پہلے مرحلے میں۱۶۱۸؍ امیدواروں میں سے صرف ۱۳۵ خواتین تھیں۔یہ سلسلہ بعد کے مراحل میں بھی جاری رہا، جس میں خواتین امیدواروں کی تعداد کا ایک چھوٹا سا حصہ باقی رہا۔
دوسرے مرحلے میں ۱۱۹۸؍ امیدواروں نے حصہ لیا جن میں سے ۱۱۹۲؍ امیدواروں کے حلف ناموں کا تجزیہ کیا گیا اور ۱۰۰ خواتین تھیں۔تیسرے مرحلے میں۱۳۵۲؍امیدوار میدان میں تھے جن میں۱۲۳ خواتین اور۲۴۴ کے خلاف مجرمانہ مقدمات درج تھے۔چوتھے مرحلے میں۱۷۱۷؍ امیدواروں میں سے۱۷۱۰؍امیدواروں کے حلف ناموں کا تجزیہ کیا گیا اور۱۷۰ خواتین تھیں۔
پانچویں مرحلے میں سب سے کم ۶۹۵؍ امیدوار تھے، جن میں ۸۲خواتین تھیں، جبکہ چھٹے مرحلے میں۸۶۹ امیدواروں میں سے ۸۶۶ کے حلف ناموں کا تجزیہ کیا گیا اور۹۲ خواتین تھیں۔
ساتویں مرحلے میں۹۰۴؍امیدوار میدان میں اتریں گے جن میں سے صرف ۹۵ خواتین ہوں گی۔
اس اہم صنفی عدم توازن نے سیاسی تجزیہ کاروں اور کارکنوں کی جانب سے تنقید کو جنم دیا ہے، جو سوال کرتے ہیں کہ سیاسی جماعتیں خواتین کو فعال طور پر ٹکٹ جاری کرنے کے بجائے خواتین ریزرویشن بل کے نفاذ کا انتظار کیوں کر رہی ہیں۔
دہلی یونیورسٹی کے جیسس اینڈ میری کالج کی پروفیسر ڈاکٹر سشیلا راما سوامی نے اس بات پر زور دیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو خواتین کی امیدواری کو فروغ دینے کے لئے ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں۔
برطانیہ کی لیبر پارٹی کی طرح پارٹی ڈھانچے میں خواتین کے لیے نشستوں کے ریزرویشن کی افادیت پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو زیادہ فعال ہونا چاہیے تھا اور زیادہ سے زیادہ خواتین امیدواروں کو میدان میں اتارنا چاہیے تھا۔
علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر افتخار احمد انصاری نے کہا کہ ہندوستان کے رائے دہندگان میں خواتین کی تقریبا نصف تعداد ہے، امیدواروں کے پول میں ان کی کم نمائندگی سیاسی میدان میں خواتین کی مکمل شرکت کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے بارے میں وسیع تر سوالات کو جنم دیتی ہے۔
علامتی اشاروں اور وعدوں سے ہٹ کر انہوں نے سیاست میں خواتین کے لئے مساوی مواقع کو یقینی بنانے کے لئے ڈھانچہ جاتی اصلاحات کی اہمیت پر زور دیا اور صنفی تنوع کو فروغ دینے میں پارٹی قیادت کے اہم کردار پر زور دیا۔انہوں نے زور دے کر کہا کہ سیاسی جماعتوں کو امیدواروں کے انتخاب میں صنفی شمولیت کو ترجیح دینی چاہئے اور خواتین امیدواروں کو مناسب حمایت فراہم کرنی چاہئے۔
اے ایم یو کے عبداللہ ویمن کالج کی ایک ریٹائرڈ فیکلٹی ممبر فرحت جہاں نے کہا کہ خواتین کی سیاسی نمائندگی کا مسئلہ عددی کوٹے سے آگے بڑھ کر پارٹی کی حرکیات اور انتخابی عمل میں منظم تبدیلیوں کا احاطہ کرتا ہے۔
اے ایم یو کے شعبہ سیاسیات کے پروفیسر‘ محمد آفتاب عالم نے سماجی اثرات کے درمیان آزاد انہ سیاسی رائے قائم کرنے میں خواتین کو درپیش چیلنجوں کی نشاندہی کی۔انہوں نے علامتی نمائندگی کے وسیع تر مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا’’یہاں تک کہ منتخب ہونے والوں کو بھی اکثر علامتی کرداروں میں ڈال دیا جاتا ہے۔‘‘ (ایجنسیاں)