صاحب ایک بات تو طے ہے کہ ووٹر باد شاہ ہے… کم از کم انتخابات کے دوران بادشاہ ہے کہ وہ جسے چاہے تاج پہنائے اور جسے چاہے تخت سے اتار دے … اپنے بھارت دیش میں آجکل الیکشن چل رہے ہیں… سات میں سے پانچ مراحل مکمل ہو چکے ہیں… اور اب تک ہوئی ووٹنگ سے پتہ چلتا ہے… سچ پوچھئے تو کچھ پتہ نہیں چلتا ہے اور… اور یہی ایک بات ووٹر کو باد شاہ بنا دیتی ہے … اس کے رحم و کرم پر سبھی امیدوار ہو تے ہیں… طاقتور سے طاقتور امیدوار بھی …آخر کوئی نہیں جانتا ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا… کسی کو معلوم نہیں ہے کہ ۴ جون کی جھولی میں کس کیلئے کیا ہے… ویسے تو’ تیسری بار بھی مودی کی سرکار‘ طے ہے… لیکن صاحب ‘کوئی وثوق سے نہیں کہہ سکتا ہے کہ کیا واقعی میں ایسا ہو نے والا ہے…وہ کیا ہے کہ کوئی کہتا ہے کہ تیسری بار بھی این ڈی اے کی حکومت بن جائیگی اور الیکشن محض ایک رسم پوری ہے… جبکہ کچھ ایک ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں… ڈنکے کی چوٹ پر کہتے ہیں کہ … کہ’ اب کی بار نہیں بنے گی مودی کی سرکار‘۔دونوں اپنی باتوں ‘ اپنے دعوؤں کے حق میں دلیل دیتے ہیں… مضبوط دلیل … مودی کے جیتنے کی بات کرنے والے اور انڈیا الائنس کی کامیابی کا ناقابل یقین دعویٰ کرنے والے بھی … دونوں کی باتوں کو سن کر ہم جو ایک بات یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم کوئی بات یقین کے ساتھ نہیں کہہ سکتے ہیں… کوئی نہیں جانتا ہے کہ ۴ جون کو کیا ہونے والا ہے… سوائے ووٹر حضرات کے… کہ …کہ انہیں معلوم ہے کہ انہوں نے کس کے سر پر تاج رکھا ہے… پانچ سال میں کچھ ایک دنوں کیلئے ہی ووٹر حقیقی باد شاہ ہوتا ہے… اپنی مرضی کا مالک … جہاں جی چاہے‘ جسے ووٹ دینا چاہے ‘ دے سکتا ہے اور… اور دیتا بھی ہے… پھر بھلے ہی پانچ سال تک بے چارہ یہ اپنے منتخبہ نمائندے کے رحم و کرم پر جیتا ہے… جو اسے کسی خاطر میں لانا ضروری نہیں سمجھتا ہے… لیکن الیکشن کے دوران یہ ووٹر ہے… کوئی اور نہیں جو باد شاہ ہوتا ہے… اور اس لئے ہوتا ہے کیونکہ اس کے پاس طاقت ہو تی ہے… ملک کی تقدیر بدلنے کی طاقت۔ ہے نا؟