بارہمولہ پارلیمانی حلقے میں ریکارڈ توڑ ووٹنگ ہوئی جو اس امرکو واضح اور اُجاگر کرنے کیلئے کافی ہے کہ لوگوں کی اکثریت جمہوریت اور جمہوریت کے حوالہ سے حاصل حقوق پر غیر متزلزل اعتماد اور یقین رکھتی ہے۔ لوگوں کے اس اعتماد اور یقین کا احترام کرنے اورلاج رکھنے کی براہ راست ذمہ داری چنائو کمیشن کی ہے اور دوسرے درجے پر چنائو کمیشن سے وابستہ ان اداروں اور افراد کی ہے جو کسی نہ کسی حوالہ سے الیکشن پراسیس سے وابستہ ہیں، ایڈمنسٹریشن مستثنیٰ نہیں ۔
کشمیرمیں کچھ حلقے باربار اس بات کواضح کرنے بلکہ اپنے خدشات کا بھی برملا اظہار کررہے ہیں کہ اب کی بار جوا لیکشن ہوئے ان کا ۱۹۸۷ء میں ہوئے الیکشن کا سا حشر نہیں کیاجانا چاہئے جس حشر نے نتائج کے حوالہ سے پورے جموں وکشمیر کو لہور نگ کردیا، نئے قبرستان آباد ہوئے ،بستیوں کی بستیاں اُجڑ گئیں، یتیموں اور بیوائوں کی ایک نئی فصل وجود میں آگئی، لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد جہاں جیلوں کی نذر ہوتی گئی وہیں ایک محتاط انداز ہ کے مطابق دس ہزار کے قریب لوگ لاپتہ ہوگئے، غرض کشمیر ہر اعتبار سے تباہ وبرباد ہواجو فی الوقت سنبھالنے کے باوجود سنبھالا نہیں جاپارہا ہے۔
وزیراعظم سے لے کر کشمیرنشین اور کشمیر سے باہر کی دُنیا نے کشمیرکے پالیمانی حلقوں میں ووٹنگ کے شرح تناسب کیلئے لوگوں کے جمہوریت پر سے اعتماد کی بحالی کا والہانہ خیر مقدم کیا ہے اور کیا جارہا ہے لیکن کچھ حلقے وسوسوں اور خدشات میں مبتلا بھی ہیں اور ان کا اظہار بھی کررہے ہیں۔ الیکشن میدان میں اُترے اُمیدوار تو کئی ہوتے ہیں لیکن جیت صرف ایک ہی کی ممکن ہے۔ اس ایک کی جیت ممکن بنانے کیلئے بہت سارے دائو پیچ بھی آزمائے جارہے ہیں ۔ دھونس ، دبائو، طاقت کا بے جااستعمال، زبردستی گھس پیٹھ، قطاروں میں نظرآنے والے مخالفین کو کسی اور سمت دھکیل کر انہیں ووٹ ڈالنے سے محروم کرنے اور پولنگ بوتھوں کے اندر کی رسہ کشی محض چند حوالے ہیں۔
اگر چہ اس نوعیت کا اپروچ اور طرزعمل کشمیرکے الیکشن پراسیس کے حوالوں سے حیران کن یا نیا نہیں لیکن اس قسم کے غنڈہ گرد، غیر صحت مند اور غیر جمہوری کلچر کی داغ بیل نہ صرف کشمیرنشین سیاسی قبیلوں نے رکھی ہے بلکہ ایڈمنسٹریشن سے وابستہ سارے کرداروںنے ماضی کے حوالہ سے اس کلچرکی آبیاری کرکے شہرت بھی پائی اور نام بھی کمایا ہے جن کا تذکرہ سینہ بہ سینہ بھی آج کی جنریشن تک پہنچ رہا ہے بلکہ تاریخی کتب میں رقم بھی ہے۔
مثل مشہور ہے۔ چور چوری سے جائے، ہیرا پھیری سے نہیں، کیونکہ اس میں فطرت اور خصلت کا حد سے زیادہ عمل دخل ہے۔ بارہمولہ پارلیمانی حلقے کی اسمبلی کا نسٹی چیونسی پٹن کے ہانجی ویر علاقے میں پولنگ بوتھ پر مبینہ طور سے قبضہ کرنے اور غیر قانونی طور سے داخل ہوکر اس حلقے سے الیکشن لڑنے والے اُمیدوار سجاد غنی لون کے ایک دست راست عمران رضاانصاری کا اپنے کچھ ساتھیوں ؍حامیوں کے ہمراہ ادہم مچانے اور روکنے پر متعلقہ پولیس اسٹیشن کے انچارج آفیسر خالد فیاض پر مبینہ حملہ آور ہونے کا جو واقعہ منظر عام پر آیا ہے وہ الیکشن لڑنے والے اُمیدوار سجاد غنی لون کے ماتھے پر ایک بدنما دھبہ کی حیثیت میں رقم ہوچکا ہے۔ اگر چہ پولیس نے اس مخصوص واقعہ کے حوالہ سے ایف آئی آر درج کرالی ہے لیکن لوگوں کو یہ یقین نہیںہے کہ اعلیٰ حکومتی سطح پر اس واقعہ کا کوئی سنجیدہ نوٹس لیا جائے گا اور ضابطے کے تحت حملہ آوروں کی قیادت کرنے والے عمران رضا کے خلاف کسی تادیبی کارروائی کو عمل میںلایا جائے گا۔
سجاد غنی لون کا نیا نعرہ کشمیرمیں ایف آئی آر درج کرائے جانے کا کلچر کے خاتمہ سے تعلق رکھتا ہے، اب جواس مخصوص واقعہ کے تعلق سے پولیس اسٹیشن پٹن میںایف آئی آردرج کرالی گئی ہے اور جس ایف آئی آر کی مدعی خود پولیس ہے کیاسجادصاحب کیلئے یہ پہلی آیف آئی آر ہوگی جس کو خارج کراکے نعرہ کو عملی جامہ پہنانے کی شروعات کی جائیگی۔
ایف آئی آر دُنیا کی ہرقانونی کتب کا ناقابل تنسیخ حصہ ہے۔اس شق کے بغیر پولیس کا نظم ونسق دُنیا میں جہاں کہیں بھی ہو نہ اپنا وجود قائم رکھ سکتی ہے اور نہ مجرمانہ سرگرمیوں چاہئے وہ کسی بھی نوعیت کی ہوں سے نمٹنے کا تصور کرسکتی ہے۔ اسی نوعیت کا ایک نعرہ سابق مرکزی وزیرداخلہ پی چدمبرم نے بھی کشمیرکے حوالہ سے ایک مرحلہ پر یہ کہکر دیا تھا کہ کشمیر کے نوجوانوں کے خلاف جو بھی ایف آئی آر اور دیگر کاررائیاں ہیں انہیں واپس لیاجائے گا لیکن کیا کسی پولیس اسٹیشن نے اپنے یہاں اندراج کسی ایف آئی آر کو کالعدم قراردیا۔ بہتر ہے کہ سیاستدان گمراہ کن نعروں کے اختراعات کی بجائے حقیقت پسندانہ نظریہ اور طرزعمل کو اپنی زندگیوں اور سیاسی سفر کا حصہ بنائیں، ایسا کرنے سے معاشرتی سطح پر بھی بہت ساری خرابیوں کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔
مخصوص واقعہ کے حوالہ سے یہ سوال بے جا نہیں کہ پیپلز کانفرنس کا دوسرے درجے کے لیڈر کو اپنے حامیوں کے ساتھ پولنگ بوتھ پر حملہ آور ہونے کیلئے کیوں مجبور ہونا پڑا، چنائوی مہم تو کئی گھنٹے قبل ختم ہوچکی تھی، کیا مقصد مخالفین کوووٹ ڈالنے سے روکنا تھا یا پولنگ سٹیشن پر قبضہ کرکے اپنے اُمیدوار کے حق میں مشین کے بٹن دبانے سے متعلق طے شدہ آپریشن کو منطقی انجام تک پہنچانے سے تھا ؟ کچھ تو شرم کرو۔ جمہوریت اور حب الوطنی کے دعویدار اس خباثت پر بھی اُتر جائیں یقین نہیں آتا۔
یہ طرزعمل ان لوگوں جو پولنگ بوتھوں پر قطار اندر قطار ووٹ ڈالنے کیلئے اپنی مرضی اور چاہت کے باری کا انتظار کرتے رہے اور جو جمہوریت اور جمہوری طرز عمل پر اپنے یقین محکم اور غیر متزلزل اعتماد کے ساتھ پہلا یا اپنی زندگی کا دوسرا یا تیسرا ووٹ کاسٹ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں کیلئے نہایت ہی ناگوار، ناخوشگوار ، غیر متوقع بلکہ ناقابل یقین منظرنامہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔