سرینگر//
جموں کشمیر نیشنل کانفرنس نائب صدر اور شمالی کشمیر بارہمولہ نشست کیلئے پارٹی اُمیدوار عمر عبداللہ نے بدھ کو کہا کہ یہاں کے عوام کو انصاف دلانے کی جدوجہد آسان نہیں ہے اور یہ لڑائی ہم اکیلے نہیں لڑ سکتے ہیں، اس کیلئے عوام کے بھر پور تعاون اور اشتراک کی ضرورت ہے ۔
عمر نے کہاکہ موجودہ پارلیمانی انتخابات سیمی فائل اور آنے والے اسمبلی چناو فائنل ہونگے ۔
ان باتوں کا اظہار عمر عبداللہ نے ٹنگمرگ میں چناوی جلسے سے خطاب کے دوران کیا۔
عمر عبداللہ نے کہاکہ ہم جب بات کرتے ہی تو کسی ایک کی بات نہیں کرتے ہیں، ہم جب کوئی کام کرتے ہیں تو کسی ایک مخصوص طبقہ یا علاقے کیلئے نہیں کرتے ہیں، ہم جوبھی کرتے ہیں ہر ایک کیلئے کرتے ہیں۔
سابق وزیر اعلیٰ نے کہاکہ ہم نے جب یہاں نئے انتظامی یونٹ بنائے ہم نے ہر ایک جگہ پر نئی نیابتیں بنائیں، نئی تحصیلیں بنائیں، نئے بلاک بنائے ۔ جب میں نے اپنے دورِ حکومت میں ویری فکیشن کے بلیک لسٹ کو ختم کرنے کا فیصلہ لیا تو وہ کسی ایک مخصوص طبقہ کیلئے نہیں تھا بلکہ جموں وکشمیر کے ہر ایک باشندے کیلئے تھا۔
این سی نائب صدر کے مطابق ہمارا موقف تھا کہ ملی ٹینٹ کا بیٹا یا رشتہ دار ملی ٹینٹ نہیں ہے اور کسی بھی فرد کو کسی دوسرے فرد کی غلطی کی سزا نہیں ملنی چاہئے اور ہم نے نوجوانوں کی ویری فکیشن کا عمل آسان بنا یا لیکن آج یہ بلیک لسٹ کا سلسلہ پھر شروع ہوگیا، آج تو اُس بچے کی ویری فکیشن بھی نہیں ہوتی جس کا کوئی دور کا رشتہ دار ۱۹۹۰میں ملی ٹینٹ تھا ، جب یہ بچہ پیدا نہیں ہوا تھا اور اس وجہ سے یہ بچے نہ نوکری حاصل کرسکتے ہیں، نہ پاسپورٹ حاصل کرسکتے ہیں اور نہ بینکوں سے قرضے لے سکتے ہیں۔
عمرعبداللہ نے کہا کہ آج ہمارے ہزاروں نوجوان باہری جیلوں میں قید ہیں اور اُن میں سے بیشتر ایسے ہیں جن کیخلاف کوئی ٹھوس کیس بھی نہیں ہے ، ہم جب بات کریں گے تو ان ہزاروں نوجوانوں کی بات کریں گے ، ہمارا لڑائی تب پوری ہوگی جب ہم ان تمام نوجوانوں کو یہاں واپس لائیں گے اور ان کے کیسوں کا جائزہ لیکر ان کی رہائی کا کام کریں گے ۔ لیکن اس کیلئے ہمیں پہلے سیمی فائنل اور پھر فائنل میں کمربستہ ہوکر اس ہل والے نشان کو کامیاب بنانا ہے ، موجودہ پارلیمانی انتخابات سیمی فائنل اور آنے والے اسمبلی انتخابات فائنل ہونگے ۔
سابق وزیر اعلیٰ نے کہا کہ آج ہماری آواز کو دبائی جارہاہے ‘۲۰۱۸کے بعد یہاں براہ راست دلی کا راج چل رہاہے ، حکمرانی اور حکومتی فیصلوں میں یہاں کے عوام کی رائے شاملِ حال نہیں۔ یہاں کے عوام کے فیصلے وہ لے رہے ہیں جو نہ کی زمینی صورتحال سے واقف ہیں، نہ یہاں کی جغرافیائی حالات سے واقف نہیں اور نہ ہی کے عوام کی زبان سمجھتے ہیں۔
عمر نے کہا کہ دفعہ۳۷۰؍اور۳۵؍اے کے خاتمے کے بعد بڑے بڑے اعلانات کئے گئے لیکن یہاں کے عوام کو کچھ نہیں ملا۔ نوجوانوں سے جس روزگارکے وعدے کئے گئے وہ اب باہری اُمیدواروں کو دیا جارہاہے ، آپ کسی بھی دفتر میں جائے وہاں آپ کو صرف باہر کے لوگ نظر آئیں گے ۔
ان کاکہنا تھا’’یہاں کے لوگوں کو پریشانی‘ مصائب اور مشکلات کے سوال کچھ نہیں ملا۔ہمیں کالج نہیں ملے‘ ہمیں سکول نہیں ملے ، ہمیں ہسپتال نہیں ملے‘ ہمیں نوکریاں نہیں ملیں،یہاں کوئی نیا کارخانہ نہیں کھلا، کوئی نئی فیکٹری نہیں لگی، لیکن شراب کی دکانیں جگہ جگہ کھلیں اور پھر یہ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ یہاں لوگ مطمئن اور خوش ہیں‘‘۔
عمر عبداللہ نے کہاکہ یہ لوگ یہاں شراب ایسے فروخت رہے ہیں جیسے پانی تقسیم کررہے ہیں، میں اُس وقت حیران ہوا جب میں نے سنا کہ کپوارہ میں ایک شراب کی دکان دن میں ۴سے۵لاکھ کی کمائی کرتی ہے جبکہ ایک عام دکاندار ایک ہزار ، دوہزار یا۳ہزار سے زیادہ نہیں کماتا، یہ حال کرکے رکھ دیا گیا ہمارا، ہمارے بچوں کو منشیات اور شراب کے بغیر کچھ نہیں دیا جارہاہے ۔