سرینگر//
سرینگر کی ایک عدالت نے کشمیری صحافی آصف سلطان کو سال۲۰۱۹میں سرینگر سینٹرل جیل میں قیدیوں کے احتجاج سے متعلق ایک کیس میں ضمانت دے دی ہے ۔
صحافی کو جن شرائط کی بنیاد پر یہ ضمانت دی گئی ہے ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ ضرورت پڑنے پر ان کو تحقیقاتی افسر کے سامنے حاضر ہونا ہے ۔
ایڈیشنل سیشن جج جو نیشنل انوسٹی گیشن ایجنسی ایکٹ کے تحت نامزد ایک خصوصی جج ہے ، نے ۱۰مئی کو آصف سلطان کو یہ کہتے ہوئے ضمانت دے دی ہے کہ ملازم کی مزید نظر بندی کا کوئی معنی نہیں ہے ۔
جج نے مشاہدہ کیا’’یہ واقعہ زائد از۵برس قبل پیش آیا تھا اور ملزم/ درخواست گذار کی حراست میں پوچھ تاچھ کے لئے تفتیشی ایجنسی کو قرب ڈھائی ماہ(۷۲دن) کا کافی وقت دیا گیا ہے ‘‘۔
جج نے کہا’’ملزم/ درخواست گذار پہلے ہی فروری۲۰۲۴تک پی ایس اے کے تحت بند تھا اور ملزم/ درخواست گذار کی مزید نظر بندی کا کوئی مقصد نہیں ہے ‘‘۔
عدالت نے کہا’’ملزم کے خلاف الزامات کی نوعیت اور اس کیلئے مقرر کردہ سزا، ملزم کی مدت حراست یعنی وہ ۷۲دنوں سے زیر حراست ہے ‘‘۔
عدالت نے کہا’’جائے وقوعہ سے بازیابی کی گئی ہے جس کو ایف ایس ایل کے لئے بھیج دیا گیا اور اس کیس کی بیشتر تفتیش مکمل ہوچکی ہے اور اس مرحلے پر درخواست گذار کی ضمانت منظور کرنے کی صورت میں انصاف کا مفاد پورا ہوگا‘‘۔
کورٹ حکمنامے میں کہا گیا’’عرضی گذار/ ملزم کی ضمانت منظور کی جاتی ہے بشرطیکہ وہ ایک لاکھ روپیے کا ضمانتی مچلکہ جمع کرے ‘‘۔
آصف سلطان پر سری نگر کی سینٹرل جیل سے متعلق ایک کیس میں مقدمہ درج کیا گیا تھا جس میں اپریل۲۰۱۹میں قیدیوں کی طرف سے کچھ قیدیوں کو منتقل کرنے کی افواہوں پر احتجاج کیا گیا تھا۔
مظاہرین نے مبینہ طور پر ایک عارضی پناہ گاہ کو آگ لگا دی تھی تاہم اس دوران کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔
سماعت کے دوران عدالت کی جانب سے طلب کردہ پولیس رپورٹ میں بتایا گیا کہ ملزموں کے خلاف یہ الزامات ہیں کہ۴؍اپریل۲۰۱۹کو سینٹرل جیل سری نگر میں انہوں نے جیل کے کچھ دوسرے قیدیوں کے ساتھ مل کر کچھ بیرکوں کو نذر آتش کر دیا،ملک مخالف نعرے لگائے اور جیل ملازموں پر پتھرائو کیا جس سے کچھ اہلکار زخمی ہوگئے ۔
اس سلسلے میں پولیس اسٹیشن رعنا واری میں آر پی سی کے متعلقہ دفعات بشمول۳۰۷کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
آصف سلطان کو سال ۲۰۱۸میں مبینہ طور پر ایک کالعدم جنگجو تنظیم کے ساتھ کام کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور ان کے خلاف یو اے پی اے اور دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔