جب ہم کہتے ہیں کہ کشمیرمیں سیاست کے نام پر خباثت کا ننگا ناچ ہورہا ہے اور کم وبیش ہر سیاسی پارٹی اسی سیاسی خباثت میں قدم قدم پر ملوث اور سرگرم عمل رہ کر اپنی سیاسی دُکانیں سجا اور چلارہی ہیں تو غالباً کچھ غلط نہیں۔ اگر اس حوالہ سے انفرادی طور سے ہر سیاسی پارٹی کاانداز فکر، اپروچ اور طرزعمل بشمول ان کا لہجہ، زبان اور مخصوص سیاسی کلچر کا تجزیہ کرکے ان کا احاطہ کریں تو ننگی نہائے گی کیا نچوڑے گی کیا کے مترادف ان کی قئے کی صورت میں باہر آجائیگی!
ابھی چند ہی گھنٹے قبل گذشتہ شمار ے میں ہم نے سرینگر پارلیمانی حلقے میں ووٹنگ کے حوالہ سے یہ رائے پیش کی کہ ۳۷۰؍ کی حامی کچھ جماعتوں کی جانب سے نتائج کو ریفرنڈم کے طور لیا اور پیش کیاجارہا ہے جبکہ ۳۷۰؍ کے خاتمہ کے حوالہ سے ہم خیال جماعتوں کا موقف اس کے برعکس ہے۔ یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ ۳۷۰؍ کی حامی پارٹیوں کے اُمیدوار الیکشن میں کامیابی کی صورت میں دعویٰ کریں گے کہ عوام نے دفعہ کو ختم کرنے کے حکومتی اقدام کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کیا جبکہ ہم خیال پارٹیوں کے اُمیدوار اپنی کامیابی کی صورت میں یہی دعویٰ کریں گے کہ عوام نے منسوخی کے حق میں اپنا فیصلہ سنادیا ہے۔
محض ۲۴؍ گھنٹوں کے اندر اندر ہی اس حوالہ سے آوازیں اور دعویٰ سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ سابق کانگریسی لیڈر جو مرکز میں کئی وزارتی عہدوں کے علاوہ راجہ سبھا میں پارٹی کے لیڈر کی حیثیت سے متمکن رہے ہیں کا اس تعلق سے جو ردعمل سامنے آیا ہے وہ قابل توجہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’انہیں توقع تھی کہ ڈالے گئے ووٹوں کا شرح تناسب ۹۰۔۹۵؍فیصد کے درمیان ہوگا تاکہ یہ پتہ لگایا جاسکے کہ لوگ دفعہ ۳۷۰؍ کے خاتمہ پر خوش ہیں یا ناخوش! لیکن جو شرح تناسب سامنے آیا ہے اس سے یہ انداز ہ نہیں لگایا جاسکتا ہے کہ ۳۷۰؍ کے بارے میں اورریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے فیصلے پر ان کا ردعمل کیا ہے‘‘۔
اسی حوالہ سے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کا کہنا ہے کہ سرینگر پارلیمانی حلقے میں ڈالے گئے ووٹوں کے شرح تناسب نے دفعہ ۳۷۰؍ کے خاتمہ کے حوالہ سے نتائج سامنے آرہے ہیں ۔ شرح تناسب میںیہ اضافہ واضح کررہاہے کہ دفعہ ۳۷۰؍ کے خاتمہ کے نتیجہ میں لوگوں کا جمہوریت پر سے اعتماد مضبوط ہوا ہے جبکہ جموں وکشمیرمیں جمہوریت کی جڑیں بھی مضبوط ہوئی ہیں۔
وزیرداخلہ امت شاہ دفعہ ۳۷۰؍ ختم کرنے اور ریاست کی تنظیم نو کے فیصلے کے خالق اور معمار تصور کئے جارہے ہیں۔ وہ اس حوالہ سے جو بھی بیان دیں گے یا ردعمل ظاہر کریں گے وہ متوقع خطوط پر ہی تصور کئے جاسکتے ہیں البتہ غلام نبی آزاد نے بھی ووٹ کے شرح تناسب کو دفعہ ۳۷۰؍ پر ریفرنڈم سے منسوب کیا وہ کئی پہلوئوں سے اگر چہ حیران کن نہیں ہے لیکن جس سیاسی دورسے وہ گذرے ہیں، جس پارٹی سے زائد از چالیس سال تک وابستہ رہے ہیں، کشمیرکے تعلق سے پارٹی کے فیصلوں میںشریک رہے ہیں وہ اس طرح کا ردعمل ظاہر کریں گے وہ غالباً شرمناک بھی ہے اور ان سے ایسے کسی ردعمل کی بھی توقع نہیں کی جارہی ہے۔
آزاد صاحب آنجہانی اندرا گاندھی کی وزارت میں بحیثیت وزیر فرایض انجام دے چکے ہیں جبکہ ان کی جانشین حکومتی عہدوں پر بھی فائز رہ چکے ہیں۔ ا س ساری مدت کے دوران دفعہ ۳۷۰ میں دراڑیں ڈال کر کئی اقدامات کئے جاتے رہے اور آہستہ آہستہ مگر منظم طریقے سے دفعہ ۳۷۰؍ کو جواہر لال نہرو کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر بنا کر اس کو اندر ہی اندر سے کھوکھلا بنایاجاتار ہا۔
آج کی تاریخ میں آزاد صاحب دفعہ ۳۷۰؍ کے تعلق سے جس ریفرنڈم کا دبی زبان میں تذکرہ کررہے ہیں کیا انہوںنے بحیثیت کانگریس لیڈر بحیثیت مرکزی وزیر اور بحیثیت ریاست جموں وکشمیرکے وزیر اعلیٰ کے کبھی کسی مرحلہ پر اپنی پارٹی اور حکومتی قیادت سے سوال کیا کہ وہ اس مخصوص آئینی تحفظ اور ضمانت جس کو الحاق کے صلے میں اور جموں وکشمیرکے لوگوں کے منفرد تاریخی تشخص کے احترام اور تحفظ میں آئین کا حصہ بنا یا گیا کو اب کس سیاسی ، آئینی اور اخلاقی بُنیاد پر بتدریج ختم کرکے زک پہنچایا جارہاہے۔اس حوالہ سے ایسی کوئی شہادت یا بیان یا اختلافی نوٹ عوام باالخصوص جموںوکشمیرکے لوگوں کی نگاہ میںنہیں ہے اور نہ ہی ریکارڈ پر ہے۔
کانگریس سے علیحدگی اور اپنی پارٹی کے قیام کے تناظرمیں آزاد صاحب سے یہ خاص توقع وابستہ کی گئی کہ وہ جموںوکشمیر کے سیاسی منظرنامہ سے وابستہ ہوکر طبقاتی اور علاقائی نظریات سے بالا تر ہو کر جموںوکشمیر کی سیاسی فضا کو ایک نئی جہت عطاکریں گے لیکن بہت جلد ان سے یہ توقع اُس وقت ہوا ہوگئی جب انہوںنے مخصوص طور سے چناب خطے کو ایک ماڈل خطے کے طور ترقی دینے کا ایجنڈاپیش کرکے عملاً اعلان کیا کہ ان کی سیاست اور سیاسی سرگرمیوں کا محور اور مرکز چناب خطہ ہی رہے گا جبکہ دوسرے خطے اس تعلق سے ان کیلئے ثانوی حیثیت کے حامل رہینگے۔
اور اب دفعہ ۳۷۰؍ کے خاتمہ کو ووٹوں کے شرح تناسب سے براہ راست وابستہ کرکے ا س الیکشن کو ریفرنڈم قرار دے کر آزاد صاحب نے اُسی سیاسی غلاظت کا سہارا لیا جس غلاظت کو کئی دوسرے سیاستدان اور پارٹیاں پہلے ہی لے چکی ہیں۔ اس مخصوص ایجنڈا پر پارلیمنٹ کی رکنیت حاصل کرنے والے اصحاب پارلیمنٹ کی نشستوں پر براجماں ہونے کے بعد دفعہ ۳۷۰؍ کے تعلق سے کون سا رول اداکریں گے جبکہ ۲۰۱۹ء سے اب تک کے براجماں اراکین ایوانوں میں آج تک ایک بھی لفظ اپنی اپنی زبانوں پر لانے کی جرأت نہیں کرپائے ہیں۔
نہ دفعہ ۳۷۰؍ کے حامی منتخب ہونے کی صورت میں پارلیمنٹ کے آئندہ اجلاس میں سبکدوش ہورہی پارلیمنٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دلواسکتے ہیں اور نہ ہی آئین میں ایک نئی ترمیم کا سہارا لے کر اس کی واپسی کو ممکن بناسکتے ہیں۔ چاہئے دفعہ ۳۷۰؍ کے حامی اور مخالف ایک جٹ بھی ہوجائیں اور ایوان میں یک زبان ہوکر آپسی اتحاد کا جسمانی مظاہرہ بھی کریں تو بھی کوئی مدعا حاصل ہونے کی اُمید یا گنجائش نہیں بلکہ ان کی آواز نقار خانے میں طوطے کی آواز کے ہی مترادف ہوگی۔