سرینگر …جموں قومی شاہراہ پر ڈگڈول سیکٹر میں واقع خونی نالہ کی متصل نئی ٹنل کی تعمیر میںپیش آیا دلخراش واقعہ اگر چہ تعمیر وتجدید کے مخصوص تناظرمیں نہ نیا ہے اور نہ حیران کن لیکن جدید ٹیکنالوجی اور بدلتے طریقہ کار کے پس منظرمیںایسے دلخراش معاملات ایک تو کسی چیلنج سے کم نہیں وہیں واقعی غور وفکر کے متقاضی ہیں۔
ایک درجن کے قریب کارکنوں کی ہلاکت افسوس ناک ہے، لیکن اس نوعیت کی تعمیر وتجدید کے کاموں پر معمور ورکروں کی سلامتی اور تحفظ کیلئے مناسب اقدمات براہ راست متعلقہ تعمیراتی کمپنیوں کی اولین ترجیح ہونی چاہئے اور راست ذمہ داری بھی۔ سوال یہ ہے کہ مذکورہ اشتراکی کمپنیوں جن کے حق میں اس کام کا ٹھیکہ الاٹ ہے نے کیا اپنے کارکنوں کی سلامتی اور تحفظ کے حوالہ سے مناسب اقدامات اور تحفظاتی میکانزم اختیار کیا تھا یہ معلوم نہیں البتہ مرکزی وزارت قومی ہائی وے اتھارٹی نے سانحہ کی تحقیقات کیلئے جو سہ رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے فرض کیاجارہاہے کہ تحقیقات مکمل غیر جانبدارای کے ساتھ ساتھ شفافیت اور باریکی پہلوئوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے منطقی انجام تک پہنچائی جائیگی۔
ماہرین پر مشتمل سہ رکنی کمیٹی سے کہا گیا ہے کہ وہ دس روز کے اندر اندر اپنی تحقیقاتی رپورٹ پیش کریں اور اس بات کا پتہ لگائیں کہ حادثہ محض اتفاقی تھا یا انسانی ہاتھوں کی کارستانی ! یہ امر قابل ذکر ہے کہ سرینگر جموں قومی شاہرہ کی چارلین میں کشادگی کا پروجیکٹ دفاعی اور اسٹرٹیجک اعتبار سے ہی نہیں بلکہ کشمیر کو ملک کے ساتھ رابطہ برقرار رکھنے کے حوالہ سے ایک ایسا پروجیکٹ ہے جس کے ساتھ کسی بھی سمجھوتہ کی گنجائش نہیں!
رام بن ۔ رام سو سیکٹر خصوصیت کے ساتھ اس شاہراہ کا ایک ایسا سیکٹر ہے جہاں مسلسل تودے گرنے کا عمل جاری ہے، سڑک کے کچھ حصے بھی کھسک کر بہہ جاتے ہیں اس کی بُنیادی وجہ یہی ہے کہ شاہراہ کا یہ سیکٹر قدرتی طور سے بہت ہی حساس ہے، نرم ہے اور معمولی بارشیں ہوتے ہی تودوں کے کھسکنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔
متعلقہ ٹھیکدار کمپنیوں نے جب اپنے حق میں ٹھیکے الاٹ کروالئے تویہ فرض کیاجارہاہے کہ انہوںنے ان بُنیادی امورات کو ترجیحی طور پر ملحوظ نظررکھاہوگا ۔ پھرانہی امورات کے پیش نظر رکھتے ہوئے تعمیر وتجدید کے کام کو ہاتھ میں لیاہوگا۔ لیکن بادی النظرمیں یہی محسوس کیاجارہا ہے کہ اس مخصوص سیکٹر کے اس کمزوری کو زیادہ اہمیت نہیں دی گئی اور نہ کام کرتے وقت اس سے وابستہ چند باریک پہلوئوں کو ملحوظ خاطر رکھاگیا ہے۔
اسی پر بس نہیں سڑک کی کشادگی کے دوران بلاسٹنگ کا جو طریقہ کار اختیار کیاجاتا رہا ہے اُس طریقہ کار پر مقامی آبادی با ر بار اور قدم قدم پر اعتراض اُٹھاتی رہی ہے اور اپنے خدشات کو زبان دیتی رہی ہے۔ مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ غیر منصوبہ بندبلاسٹنگ اور دوسرے طریقہ کار کو بے ہنگم طور اختیار کرنے کے نتیجہ میں نہ صرف ان کے رہائشی مکانوں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ ان کی صحت، بقاء اور سلامتی کو بھی شدید خطرات لاحق ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ان مکینوں کی یہ چیخ وپکار کوئی سن نہیں رہا ہے اور نہ ہی ان کی اس تکلیف کو قابل اعتنا سمجھا جارہا ہے۔
سڑک کی کشادگی اور ٹنل کی تعمیر کے دوران بُنیادی طریقہ کار مکمل سلامتی اور تحفظات کے ساتھ کیا کچھ اختیار کیاجانا چاہئے اس کے حوالہ سے تکنیکی باریکیوں کے بارے میں اوسط شہری کو زیادہ جانکاری نہیں لیکن بادی النظرمیں اور مشاہدات کی بُنیاد پر یہ رائے قائم کی جاسکتی ہے کہ کمپنیوں نے اپنے کام سے کام رکھنے کو ہی ترجیح دی، سڑک کی درگت کیا بن جائیگی یا آس پاس رہائشی اور بودوباش رکھنے والوں کو کن کن مشکلات اور پریشانیوں کا مالی اور اثاثوں کے نقصان کے بشمول سامنا اور سہنا پڑے گا اس کو کمپنیوں نے کسی ترجیح کا حامل نہیں سمجھا۔
جن مکانوں اور تعمیرات کو اب تک نقصان پہنچ چکا ہے انہیں اطلاعات کے بموجب کوئی معاوضہ بھی ادانہیں کیاگیا ہے۔ یہ ان کے ساتھ زیادتی بھی ہے اور ناانصافی بھی۔لیفٹنٹ گورنر کی قیادت میںایڈمنسٹریشن کو اس حوالہ سے مداخلت کرنے کا بھر پور اختیار ہے کہ وہ مذکورہ کمپنیوں سے مکینوں کے نقصانات کی بھر پائی کو یقینی بنائیں۔ ساتھ ہی ٹنل کے حادثہ میں جو کارکن ہلاک اور زخمی ہوئے ہیں ان کے حق میں کمپنیوں سے معقول معاوضہ کی ادائیگی کی سمت میںجو مناسب کارروائی درکار ہے اس کو یقینی بنائے۔
بہرحال اب جبکہ سہ رکنی ماہرین کی کمیٹی نے تحقیقات کا کام شروع کیا ہے یہ توقع کی جارہی ہے کہ کمیٹی نہ صرف ان مخصوص وجوہات کا پتہ لگائی گی جو ٹنل کے اندر پیش آیااور جس کے نتیجہ میں کارکنوں کی ہلاکت کا افسوس ناک اور دلخراش سانحہ رونما ہوا بلکہ اس بات کی بھی مکمل تکنیکی جانچ پڑتال ہونی چاہئے کہ جب ٹنل کی تعمیر مکمل ہوگی تو وہ لوگوں اور ٹرانسپورٹ کے عبور ومرور کیلئے ہر اعتبار سے محفوظ ہوگی۔ا س ضمن میں ٹھیکہ دار کمپنیوں کو پابند بنایاجانا حالیہ سانحہ کے پس منظرمیںاب ناگزیر بن چکا ہے۔
ساتھ ہی حادثہ کے ذمہ داروں یاذمہ دار پہلوئوں ، جو کچھ بھی ہوں، مکمل تعین بھی ضروری بن جاتا ہے۔ کیونکہ معاملہ بے حد حساس ہے اور حال اور مستقبل کے حوالہ سے کوئی بھی کوتاہی اور لغزش کی گنجائش نہیں ہے۔ ہائی وے کی دفاعی اور اسٹرٹیجک اہمیت اور افادیت کے تقاضوں کو اولین ترجیح ہونی چاہئے ۔ توقع کی جارہی ہے کہ قومی نیشنل ہائی وے اتھارٹی نے معاملہ کا فوری نوٹس لے کر تحقیقات کا جو فیصلہ کیا ہے اور ماہرین کو جائے حادثہ پر پہنچا کر تحقیقاتی عمل دس روز کے اندر اندر مکمل کرنے کی ہدایت دی ہے وہ ایک مستحسن قدم ہے جو دوسرے وابستہ معاملات کے حوالہ سے بھی قابل تقلید ہے۔