سرینگر//
وزیر اعظم کی اقتصادی مشاورتی کونسل (ای اے سی۔پی ایم) کی طرف سے شائع ایک مطالعہ کے مطابق۱۹۵۰ اور۲۰۱۵ کے درمیان ہندوستان کی اکثریتی ہندو آبادی کے حصے میں۸۱ء۷ فیصد کی کمی واقع ہوئی، جبکہ مسلم برادری کے حصے میں اسی مدت میں۱۵ء۴۳ فیصد اضافہ ہوا۔
’مذہبی اقلیتوں کا حصہ:ایک کراس کنٹری تجزیہ ‘کے عنوان سے کی گئی اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ اس عرصے میں ہندوستان میں ہندو آبادی کا حصہ۸ء۷ فیصد کم ہوکر۰۶ء۷۸ فیصد رہ گیا ہے۔
اس کے برعکس مسلم اور عیسائی آبادی کا حصہ اسی مدت میں بالترتیب ۱۵ء۴۳ فیصد بڑھ کر ۰۹ء۱۴ فیصد اور ۴ء۵ فیصد بڑھ کر ۳۶ء۲ فیصد ہو گیا۔
اسی طرح سکھ اور بدھ مت کی آبادی کا حصہ اسی مدت کے دوران بالترتیب ۸۵ء۱ فیصد اور۸۱ء۰ فیصد تک بڑھ گیا۔ حالانکہ، آبادی میں جین اور پارسیوں کا حصہ گھٹ کر۲۰۱۵ میں بالترتیب۳۶ء۰ فیصد اور۰۰۴ء۰ فیصد رہا۔
کونسل کی جانب سے کیے گئے مطالعے میں واضح کیا گیا ہے کہ اس نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ یہ تبدیلیاں کیوں ہوئیں، بلکہ یہ دیکھنے کے لئے اعداد و شمار کا جائزہ لیا گیا کہ کیا اقلیتوں کو معاشرے میں کم یا زیادہ نمائندگی مل رہی ہے۔
مطالعے میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان کی کارکردگی سے پتہ چلتا ہے کہ معاشرے میں تنوع کو فروغ دینے کے لئے سازگار ماحول موجود ہے۔ پسماندہ طبقوں کے لئے بہتر زندگی کے نتائج کو فروغ دینا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک کہ نچلی سطح کے نقطہ نظر کے ذریعے پرورش کا ماحول اور معاشرتی مدد فراہم نہ کی جائے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’اس لیے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ پڑوس بھر سے اقلیتی آبادی دباؤ کے وقت ہندوستان آتی ہے‘‘۔
اس میں پایا گیا کہ کئی ہمسایہ ممالک نے اپنی اکثریتی برادری کی آبادی میں اضافہ دیکھا ہے۔ مالدیپ کے علاوہ تمام مسلم اکثریتی ممالک میں اکثریتی مذہبی فرقے کے حصے میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
پانچ غیر مسلم اکثریتی ممالک میں سے صرف سری لنکا اور بھوٹان میں اکثریتی آبادی کے حصے میں اضافہ دیکھا گیا۔
مطالعے میں کہا گیا ہے’’ہم ہندوستان کے ساتھ جغرافیائی قربت کی وجہ سے ان ممالک میں آبادیاتی تبدیلیوں کی ساخت کو نوٹ کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ لہٰذا ان کی آبادی میں کسی بھی اہم اتار چڑھاؤ کا ہندوستان کی سیاست اور پالیسیوں پر گہرا اثر پڑتا ہے‘‘۔
مطالعے کے مصنفین کا کہنا ہے کہ کئی حلقوں کے شور کے برعکس، اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اقلیتیں نہ صرف محفوظ ہیں بلکہ حقیقت میں ہندوستان میں پھل پھول رہی ہیں اور یہ خاص طور پر جنوبی ایشیائی پڑوس کے وسیع تر تناظر میں قابل ذکر ہے جہاں اکثریتی مذہبی فرقے کا حصہ بڑھا ہے اور بنگلہ دیش‘پاکستان، سری لنکا، بھوٹان اور افغانستان جیسے ممالک میں اقلیتوں کی آبادی خطرناک حد تک سکڑ گئی ہے۔