سرینگر//
اپنی پارٹی کے صدر‘ الطاف بخاری گزشتہ تین دہائیوں میں مرکزی دھارے کے پہلے سرکردہ سیاست داں بن گئے ہیں جو پرانے سرینگر کی تاریخی جامع مسجد کے اندر گئے۔
سرینگر کے پرانے شہر نوہٹہ میں واقع جامع مسجد کبھی پتھراؤ کے مظاہروں کے لیے جانی جاتی تھی۔
اپنی پارٹی کے صدر پرانے سرینگر میں پارٹی امیدوار محمد اشرف میر کے لئے ایک روڈ شو کی قیادت کر رہے تھے، جو ان کے ساتھ تھے۔
نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے بخاری نے کہا کہ جامع مسجد کے ان کے دورے کو سیاسی سرگرمی نہیں سمجھا جانا چاہئے۔ان کاکہنا تھا’’میں تاریخی جامع مسجد میں عبادت کرنے آیا ہوں۔ یہ مسجد قیامت تک یہیں رہے گی۔ اس مقدس مقام پر، ہم عہد کرتے ہیں کہ جب تک ہم زندہ ہیں سچائی کو برقرار رکھیں گے‘‘۔
بخاری نے کہا کہ میر واعظ عمر کا قد ایک مذہبی مبلغ کے طور پر جموں کشمیر کے کسی بھی سیاسی رہنما سے بلند ہے۔انہوں نے کہا کہ میر واعظ کبھی بھی خون ریزی کے حق میں نہیں تھے۔
میر واعظ کے لوک سبھا انتخابات کو ریفرنڈم سے تشبیہ نہ دینے کے بیان کے بارے میں پوچھے جانے پر بخاری نے کہا’’میرے خیال میں میر واعظ کبھی بھی تشدد پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ یہ ایک بے بنیاد بیانیہ تھا۔ خون ریزی کبھی خوشی نہیں لاتی۔ ان کی فیملی ۱۹۴۷ سے تشدد کا شکار ہے۔ مجھے چار سال پہلے ایجنٹ بھی کہا گیا تھا، لیکن میں نے گھٹنے نہیں ٹیکے‘‘۔
بخاری نے پرانے سرینگر میں خانیار میں دستگیر صاحب کے آستانے سے اپنے دورے کا آغاز کیا۔ انہوں نے پرانے شہر میں اس تبدیلی کا سہرا مقامی لوگوں کو دیا۔انہوں نے کہا کہ میں شہر خاص کے عوام کو پرامن ماحول کو یقینی بنانے میں ان کی بے پناہ حمایت اور تعاون کا سہرا دیتا ہوں۔ یہ دورہ ان کی حمایت کے بغیر ناممکن تھا۔
اپنی پارٹی کے صدر نے کہا کہ ہمیں شہر خاص کی رونق اور زینت واپس کرنی ہے جس کا یہ مستحق ہے ۔انہوں نے کہا کہ وادی میں قیام امن کا سہرا لوگوں کے سر بھی جاتا ہے ۔
ان کا کہنا تھا’’ہماری کوشش ہے کہ لوگوں کو یہ با ور کرائیں کہ ہم ان کے خدمتگار ہیں، ہم لوگوں کے مشکلات کو دور کرنا چاہتے ہیں‘‘۔
سرینگر کا پرانا شہر علیحدگی پسندوں کا گڑھ تھا اور علیحدگی پسند رہنماؤں کی جانب سے بائیکاٹ کی کال کی وجہ سے ۱۹۹۰ کی دہائی کے بعد سے انتخابات میں بہت کم رائے دہندگان نے ووٹ ڈالے تھے۔ تاہم، اس بار انتخابی بائیکاٹ کی کوئی کال نہیں ہے اور پہلے سے ہی اشارے مل رہے ہیں کہ اس بار پرانے سرینگر میں رائے دہندگان کی تعداد پچھلے انتخابات سے بہتر ہوگی۔
نیشنل کانفرنس اور پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی سمیت کئی سیاسی جماعتوں نے گزشتہ کچھ دنوں میں پرانے سرینگر میں انتخابی تقریبات کا انعقاد کیا ہے۔
سرینگر میں ۱۳مئی کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔ یہاں کی سیاسی جماعتوں کو توقع ہے کہ سری نگر کے پرانے شہر سمیت پورے کشمیر میں مناسب تعداد میں لوگوں کی شرکت ہوگی۔
۲۰۱۹ کے لوک سبھا انتخابات میں سرینگر میں ۴۳ء۱۴ فیصد رائے دہندگی ہوئی۔ (ایجنسیاں)