اننت ناگ …راجوری پارلیمانی حلقہ کیلئے الیکشن پراسیس کو اب ۲۵؍مئی تک توسیع دینے کے چنائو کمیشن کے فیصلے کو سنجیدہ حلقے شکوک وشبہات کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں بلکہ نامعلوم سیاسی مصلحتوںکے مطیع یکطرفہ بھی تصور کیاجارہاہے۔
یہ خیال شدت اختیار کرگیاہے کہ چنائو کمیشن نے اس مخصوص حلقے کا چنائو ان جماعتوں کی استدعا پر التواء میںڈالدیا جو بظاہر خود الیکشن نہیں لڑرہی ہیں۔اس حوالہ سے بی جے پی، پیپلز کانفرنس وغیرہ کا خاص طور سے نام لیاجارہاہے جبکہ چنائو میدان میں موجود دو اہم پارٹیوں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے چنائو کمیشن سے اپیل کی تھی کہ وہ ایسا کوئی فیصلہ نہ کرے جو چنائوی ماحول کو شک وشبہ اور خدشات کے گہرے بادلوں کی لپیٹ میں لینے کا موجب بن سکے۔
چنائو کمیشن کے اس فیصلے پر جموں نشین میڈیا کے ایک حصے کا یہ متفقہ خیال ہے کہ یہ فیصلہ حکمران جماعت بی جے پی کو اپنے حامی پراکسی اُمیدوار کے حق میں ماحول کو بہتر بنانے کی سمت میں فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے جبکہ کشمیرنشین ان چند پارٹیوں جنہوںنے الیکشن عمل کو پہلے سے طے شدہ شیڈول کوالتواء میں رکھ کر کچھ تاخیر سے ووٹنگ کی تاریخ مقرر کرنے کی درخواستیں پیش کی تھیں کی جانب سے خیر مقدم کیاجارہاہے جبکہ دبی زبان اور اشاروں میں یہ پیغام بھی دینے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وہ فیصلہ ساز ی میں برابر کی شریک ہیں اور اعلیٰ سیاسی اور انتظامی سطحوں پران کا کہا ٹالا نہیں جاتا۔
تاریخ پر نظر ثانی نہ کرنے کے دفاع میں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے جو دلائل پیش کئے تھے بادی النظرمیں چنائو کمیشن نے اپنے فیصلے میںان کاکوئی حوالہ نہیںدیا ہے بلکہ تاریخ میں توسیع کی حامی پارٹیوں کی اس دلیل سے اتفاق کیا ہے کہ موسمی حالات او رنقل وحمل میںپیش آرہی مشکلات کے پیش نظر فیصلہ ناگزیر بن چکا ہے۔
چنائو کمیشن کا یہ فیصلہ ایک ایسی شکست کابھی اعتراف ہے جس کا تعلق اس کے قائم حد بندی کمیشن کی اُن سفارشات کو آنکھیں بند کرکے بلکہ من وعن منظور کرنے کے اب کئی اعتبار سے ثابت ہورہے غلط فیصلے سے ہے۔ حد بندی کمیشن نے صرف اور صرف بعض سیاسی مصلحتوں اور کچھ لوگوں کی خواہشات اور سیاسی انانیت کی تسکین کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے اننت ناگ کے مخصوص پارلیمانی حلقے کو چناب اور پیر پنچال خطوں تک توسیع دی ، اس بات کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا کہ دونوں خطوں کی جغرافیائی ہیت اور ایک دوسرے کے درمیان مسافت اور دوریاں کتنی ہیں۔ اس فیصلے کے پیچھے کوئی معقولیت نہیں تھی، کوئی اخلاقی اور جغرافیائی ہیت کے حوالہ سے معقول جواز آج بھی کہیں نظرنہیں آرہاہے، اگر کچھ دکھائی دے رہا ہے یا محسوس کیاجارہاہے تو یہ کہ کشمیر کی ہر شعبے کے تعلق سے تقسیم درتقسیم کو کیسے اورکن مذموم طور طریقوں سے یقینی اور قابل عمل بنایا جاتا رہے۔ اب اس حوالہ سے کشمیر میںعوامی وسیاسی حلقوں کے یہ شبہات اور تاثرات مستحکم ہوتے جارہے ہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ کچھ سیاسی پارٹیوں کی لیڈر شپ ، جو اپنے عمر بھر کی کیرئیر کے دوران صرف اور صرف اپنے حقیر ذاتی مفادات اور دبدبہ کے حصول کیلئے ہی سیاسی اُفق پر جلوہ گررہی کو نہ اس طرز اور ہیت کے فیصلے اور ان فیصلوں کے پیچھے عزائم نظرآرہے ہیں اور نہ ہی وہ ان حساس نوعیت کے معاملات کے تعلق سے کوئی حساسیت رکھتے ہیں یا پروا کے قائل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس قماش کے سیاست کاروں کو ابن الوقتی ، مفاد پرست، گرگٹ اور لوٹا کہاجاتا ہے۔
نیشنل کانفرنس کے تین ارکان پارلیمنٹ حد بندی کمیشن کے ساتھ منسلک تھے لیکن حدبندی کمیشن کی جانب سے رپورٹ کو حتمی شکل دینے کے وقت تک وہ بائیکاٹ پررہے اور آخری لمحات میںکچھ حرکت کرتے نظرآئے۔ اس طرح حد بندی کمیشن کو اپنی سرنو حد بندی سے متعلق رپورٹ مرتب کرنے کی راہ میں کسی مخالفت کا خاص سامنا نہیںکرنا پڑا۔ اگرپارٹی بحیثیت آبزرور یا جو کچھ بھی ان کی حیثیت تھی نے حد بندی کمیشن کے اجلاسوں میںاپنی شرکت کرکے فعال اور متحرک کردار اداکیا ہوتا تواننت ناگ پارلیمانی حلقہ کا یہ حشر نہ ہوا ہوتا۔
بہرحال جو ہونا تھا سو ہوچکا، البتہ آج کی تاریخ میںسابق وزیراعلیٰ غلام نبی آزاد واحد سیاستدان ہیںجو اس پارلیمانی حلقہ کی اس نئی حدبندی اور حلقہ بندی کو غلط اور بغیر کسی معقول جواز کے قرار دے رہا ہے۔ کانگریس بھی حد بندی عمل کے دوران کافی حدتک خاموش رہی البتہ پارٹی سے وابستہ کچھ ایک سابق لیڈران حد بندی کے سرنوعمل کو غیر معقول اور غیر فطری قرار دیتے رہے۔ لیکن ان کی کسی نے نہیں سنی۔ کیونکہ نقار خانے میں طوطے کی آواز کسی کو سنائی نہیں دیتی اور بادل نخواستہ اگر کوئی سن بھی لے تو بے اعتنائی غالب آجاتی ہے۔
یہ بات آنے والے کا فی دنوں تک عوامی اور سیاسی حلقوں میںبحث وتکرار کا محوربنتی رہیگی کہ چنائو کمیشن نے میدان میں موجود ایک اُمیدوار اور اس کی حامی پارٹیوں کی درخواستوں کو قابل سماعت قرار دے کر ان کی خواہش کے مطابق فیصلہ کرکے چنائو کی تاریخ سرنو مقرر کردی لیکن میدان میںموجود دو بڑی پارٹیوں کی طرف سے مخالفت میں پیش درخواستوں جو کئی اعتبار سے مدلل اور جن میں مخالفت کے حوالہ سے کافی حد تک جواز اور دلائل موجود تھی کو قابل اعتنا نہیں سمجھا ۔
اس طرح چنائو کمیشن نے ایک بار پھر کشمیرکے حوالہ سے اپنی سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے اپنا طرزعمل دہرایا۔بہرحال چنائو کمیشن کے اس مخصوص فیصلے کو غیر جمہوری قرار دیتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے حلقہ کے اُمیدوار میاں الطاف کا کہنا ہے کہ محض تودوں کے گرآنے کے نتیجہ میں چنائو موخر کرنے کاکوئی معقول جواز اور تاریخ نہیںملتی جبکہ نیشنل کانفرنس کے لیڈر عمر عبداللہ نے چنائو کمیشن پر راست چوٹ کرتے ہوئے کہا کہ ایسی سازش کی کوئی مثال نہیںملتی۔ جب بارش ہورہی تھی تو کمیشن خاموش رہا اور اب جبکہ بارش رک گئی تو چنائو موخر کرنے کا فیصلہ سنایا، مقصد گشتی ووٹروں کو ووٹ کا حق استعمال کرنے سے محروم رکھنا ہے۔