نئی دہلی//
ای وی ایم،وی وی پی اے ٹی سے متعلق عرضیوں پر اپنا فیصلہ محفوظ رکھنے سے پہلے سپریم کورٹ نے جمعرات کو سماعت کے دوران کہا کہ انتخابی عمل کا تقدس برقرار رکھا جانا چاہئے ۔
جسٹس سنجیو کھنہ اور دیپانکر دتا کی بنچ نے یہ بھی کہا کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) کے بارے میں ہر چیز پر شک نہیں کیا جا سکتا۔
بنچ نے الیکشن میں ای وی ایم کے ذریعے ڈالے گئے ووٹوں کے ساتھ ووٹر ویریفائی ایبل پیپر آڈٹ ٹریل (وی وی پی اے ٹی) کی۱۰۰فیصد گنتی یا بعد میں بیلٹ پیپر کے ذریعے انتخابات کرانے کے پرانے نظام کو نافذ کرنے کا مطالبہ کرنے والی درخواستوں پر متعلقہ فریقوں کے دلائل کی تفصیل سے سماعت کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا۔
سپریم کورٹ نے ڈپٹی الیکشن کمشنر کی جانب سے این جی او ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز اور دیگر کی طرف سے دائر پی آئی ایل کی سماعت کی، الیکشن کمیشن کی طرف سے سینئر وکیل منیندر سنگھ اور ایڈوکیٹ پرشانت بھوشن، سینئر وکیل گوپال شنکر نارائنن، سنجے ہیگڑے اور سنتوش پال درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہوئے ۔
بنچ نے سماعت ختم کرنے سے ٹھیک پہلے درخواست گزاروں سے کہا’’ہر چیز پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ہم نے انہیں (الیکشن کمیشن) کو سنا ہے ۔ اگر انہوں نے کچھ اچھا کیا ہے تو اس کی تعریف کریں۔ آپ کو ہر بار ہر چیز پر تنقید کرنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ہم نے آپ کو تفصیل سے سنا۔ اگر کسی چیز کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے تو کیا سب کچھ آپ کو بتانا پڑے گا یا کسی اور کو؟‘‘
سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے ایسی پی آئی ایل سے جمہوریت کو پہنچنے والے نقصان کا حوالہ دیا اور عدالت سے کہا کہ وہ ان (درخواست گزاروں) پر جرمانہ عائد کرے ۔انہوں نے بنچ کے سامنے کہا’’یہ انتخابات کے موقع پر وقتاً فوقتاً ہوتا رہتا ہے ۔ اس سے ووٹنگ فیصد متاثر ہوتا ہے اور جمہوریت کو نقصان پہنچتا ہے ۔ وہ ووٹروں کے انتخاب کا مذاق اڑا رہے ہیں‘‘۔
سماعت کے دوران بنچ نے ڈپٹی الیکشن کمشنر نتیش ویاس سے پوچھا’’آپ ہمیں پورا عمل بتائیں، امیدواروں کے نمائندے کس طرح شامل ہیں اور چھیڑ چھاڑ کو کیسے روکا جاتا ہے ‘‘؟
سپریم کورٹ نے کہا کہ انتخابی عمل اور ای وی ایم اور وی وی پی اے ٹی کے کام کے بارے میں کوئی اندیشہ نہیں ہونا چاہئے ۔بنچ نے کہا’’ہم چاہتے ہیں کہ یا تو آپ یا کوئی اور افسر عدالت کے کمرے کے اندر یا باہر لوگوں کے تمام خدشات کو دور کردے ۔ یہ ایک انتخابی عمل ہے ۔ اس میں شفافیت ہونی چاہیے ۔ کسی کو یہ خدشہ نہیں ہونا چاہیے کہ کوئی ایسا کام ہو رہا ہے جس کی توقع نہیں کی جا رہی ہے ‘‘۔
عدالت عظمیٰ کے سامنے انتخابی افسر نے ای وی ایم، اس کے کنٹرول یونٹ، بیلٹ یونٹ اور وی وی پی اے ٹی کے کام کاج کی وضاحت کی۔
سپریم کورٹ نے یہ بھی جاننا چاہا کہ کیا وی وی پی اے ٹی اور ای وی ایم میں کوئی تضاد ہے ؟ بنچ نے پوچھا کہ اگر کسی ووٹر کو یہ (وی وی پی اے ٹی) پرچی دی جائے کہ اس نے اپنا ووٹ ڈالا ہے تو اس میں کیا حرج ہے ؟
اس پر الیکشن آفیسر نے کہا کہ ووٹوں کی رازداری کو متاثر کرنے کے علاوہ دانستہ فساد کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔
ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز کی طرف سے پیش ہوئے وکیل پرشانت بھوشن کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے بنچ نے الیکشن کمیشن کی طرف سے پیش ہونے والے سینئر ایڈوکیٹ منیندر سنگھ سے اس الزام کی تحقیقات کرنے کو کہا کہ کیرالہ کے کاسرگوڈ ضلع میں فرضی پول کے دوران بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) امیدوار کو اضافی ووٹ ملے تھے ۔
بھوشن نے ایک خبر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ کیرالہ میں ایک فرضی پول کے دوران بی جے پی کے حق میں ایک اضافی ووٹ چار ای وی ایم اور وی وی پی اے ٹی میں درج پایا گیا۔بنچ نے سنگھ کو معاملے کی دوبارہ جانچ کرنے کی ہدایت دی۔
دوپہر کو جب بنچ نے دوبارہ سماعت شروع کی تو الیکشن کمیشن کے اہلکار نے اس سے پہلے دعویٰ کیا کہ خبر کی چھان بین کی گئی اور یہ جھوٹی پائی گئی۔
واضح رہے کہ لوک سبھا ۲۰۲۴کے انتخابات کے پہلے مرحلے میں۱۹؍اپریل کو۲۱ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کی۱۰۲سیٹوں پر ووٹنگ ہونے جا رہی ہے ۔