سرینگر///
جموں و کشمیر پیپلز کانفرنس کے چیئرمین سجاد غنی لون نے اتوار کے روز شمالی کشمیر کے بارہمولہ سے نیشنل کانفرنس کے لوک سبھا امیدوار عمر عبداللہ پر شدید حملہ کرتے ہوئے کہا ’’مجھے توقع تھی کہ ایک کشمیری وہاں سے الیکشن لڑے گا، لیکن ایک سیاح ہے جسے الیکشن لڑنا ہے اور اسے لڑنے دینا ہے‘‘۔
جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے سابق رکن لون نے عمر عبداللہ کا نام لیے بغیر ان پر تنقید کی اور انہیں ’سیاح‘ قرار دیا۔
لون نے کہا ’’ مجھے توقع تھی کہ کوئی کشمیری سیاسی رہنما شمالی کشمیر کے بارہمولہ سے الیکشن لڑے گا لیکن ایک سیاح ہے جو الیکشن لڑنے کے لئے آگے آیا ہے۔ ہم سیاح دوست لوگ ہیں اور انہیں وہاں الیکشن لڑنے دیں‘‘۔
ایک سوال کے جواب میں لون نے کہا کہ ریاست کا درجہ ہمارے نظریے کی بنیاد ہے جسے ہمیں واپس لینا ہوگا۔ ’’دوسروں کو وہی کہنے دیں جو وہ چاہتے ہیں۔ افسانہ نگار کہانیاں پکانے میں اچھے ہوسکتے ہیں۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ ہم انتخابات جیتیں گے‘‘۔
کشمیر کی تاریخ میں علاقائی سیاسی جماعت نیشنل کانفرنس کے کردار کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے لون نے کہا کہ ہماری ایک تاریخ ہے اور وہاں سب کچھ واضح ہے۔ انہوں نے کہا’’ہم این سی،بی جے پی اتحاد کا شکار رہے ہیں۔ میرے والد مرحوم عبدالغنی لون پر ان کے دور حکومت میں حملہ کیا گیا تھا۔اس وقت شیوسینا تھی، جو ان کی اتحادی تھی، اور ایک کالکاجی مہاراج تھے، جنہیں ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے زیڈ سکیورٹی فراہم کی تھی۔ لیکن اس کے ساتھ ہی میرے ۷۲ سالہ والد کو گھسیٹ کر باہر نکالا گیا۔ کشمیر میں پوٹا لایا گیا تھا اور عمر عبداللہ وزیر خارجہ ہونے کے ناطے ڈھال کے طور پر کام کر رہے تھے کہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی کوئی خلاف ورزی نہیں ہو رہی ہے‘‘۔
پیپلز کانفرنس کے سربراہ کاکہنا تھا ’’ میرا تعلق اس اکثریت سے ہے جسے جیل میں ڈالا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور یہاں تک کہ میرے والد کو بھی قتل کر دیا گیا۔ اور ان(عمر) کا تعلق اس اقلیت سے ہے جس نے لوگوں کو جیل میں ڈالا، لوگوں پر پی ایس اے کے تحت مقدمہ درج کیا، گولیاں چلائیں اور کشمیر کے کونے کونے میں قبرستان بنا دیا۔ لہٰذا انہیں (این سی) مجھے وعظ نہیں دینا چاہیے کیونکہ میرے ہاتھ پر خون نہیں ہے۔ ‘‘