بارہمولہ//
کشمیری دستکاروں نے ایشیا کا اب تک کا سب سے بڑا ہاتھ سے بنا ہوا قالین تیار کیاہے۔
۷۲ فٹ x۴۰ فٹ (۲۸۸۰ مربع فٹ) تیار کرکے کشمیر کے دستکاروں نے قالین بافی میں ایک سنگ میل طے کیا ہے۔
سرینگر میں مقیم قالین برآمد کرنے والے ایک تاجر، فیاض احمد شاہ، نے کہا کہ انہیں یہ قالین تیار کرنے کا آرڈر موصول ہوا تھا جسے مکمل کرنے میں تقریباً ۸سال کا عرصہ لگا۔ انہوں نے کہا اس قالین کو تیار کرنے کا آرڈر انہیں بیرون ملک سے موصول ہوا تھا۔
فیاض احمد نے کہا ’’سال۲۰۱۵ میں‘ ہمیں اب تک کا یہ سب سے بڑا قالین بنانے کا آرڈر موصول ہا تھا۔ تاہم، اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے لائحہ عمل مرتب کرنے میں ہی ایک سال کا وقت صرف ہوا۔‘‘
فیاض احمد کے مطابق آرڈر موصول ہونے کے بعد تقریباً ایک سال بعد قالین پر کام شروع کیا گیا تاہم لیکن اچانک دفعہ ۳۷۰ کی منسوخی اور بعد ازاں عالمی وبا کورونا وائر کے باعث انہیں کئی طرح کے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔
قالین تاجر نے مزید کہا کہ ’’اتنا بڑا قالین تیار کرنا واقعی ایک چیلنج تھا۔ تاہم اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور ہماری ٹیم کی سے ہم آخر کار ساڑھے ۸سال مکمل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔‘‘
اس حوالہ سے مزید تفصیلات فراہم کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قالین قریب ۲۵دستکاروں نے تیار کیا جبکہ گزشتہ دو ماہ کے دوران دستکاروں نے چوبیس گھٹنے کام کرکے اس خواب کو حقیقت میں بدل دیا۔
فیاض احمد کے مطابق قالین کو مکمل کرنے کے بعد اسے بھارت میں مقیم ایجنٹ کے سپرد کر دیا جائے گا جو اسے اپنی آخری منزل کی اور روانہ کرے گا۔
فیاض نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ ’’قالین کو دو تجربہ کار بھائیوں حبیب اللہ اور عبدالغفار شیخ کی نگرانی میں بْنا گیا تھا۔ ان افراد نے مشکلات کے باوجود اس بات کو یقینی بنایا کہ قالین آرڈر کے مطابق تیار ہو۔
حبیب اللہ شیخ، جنہوں نے اپنے بھائی عبدالغفار شیخ کے ساتھ شمالی کشمیر کے ٹنگمرگ علاقے کے وائل، کرالپورہ میں تقریباً ۲۵دستکاروں کی سرپرستی کی اور قریب تین ہزار مربع فٹ قالین تیار کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
حبیب اللہ نے بتایا ’’اس پروجیکٹ پر تفصیلی بات چیت کے بعد ابتدائی خاکہ تیار کرنے میں ہی ایک سال لگا، بعد ازاں دو درجن سے زائد دستکاروں کو قالین تیار کرنے کے لیے چنا گیا اور قریب آٹھ سال کے عرصہ میں اسے مکمل کر لیا گیا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا ’’ہم یومیہ اجرت پر قالین بافی کا کام کر رہے ہیں اور کشمیر کے اس ورثہ کو زندہ رکھ رہے ہیں۔ تاہم انتہائی قلیل اجرت میں آج کے دور میں زندگی گزارنا مشکل ہے۔‘‘
حبیب اللہ نے حکومت سے اس صنعت کو فروغ دینے اور قالین تیار کرنے والے دستکاروں کے لیے خصوصی اسکیمیں متعارف کرائے جانے کی اپیل کی ہے تاکہ صدیوں پرانی یہ روایت و صنعت برقرار رہ سکے۔