بیگوسرائے/پٹنہ// بہار کے بیگوسرائے کی فضاؤں میں فٹ بال کا رنگ گھلا ہوا ہے اور یہ صرف فلائی اوور کے ستونوں پر لکھا ایک نعرہ نہیں، بلکہ ایک خاموش انقلاب کی داستان ہے، جو بہار کے ایک گمنام کونے میں ٹوٹی ہڈیوں اورعزت نفس کے ساتھ شروع ہوئی تھی۔
دارالحکومت پٹنہ کی بھاگ دوڑ سے دور برونی کے ایک پرسکون محلے میں فٹ بال یوں ہی نہیں آئی۔ اسے اپنی شناخت بنانے کے لیے جدوجہد کرنی پڑی۔ مجاہد آزادی یمنا بھگت کی وراثت کے طور پر جانا جانے والا یہ میدان تقریباً 80 سال قبل فٹ بال کا غیر متوقع گھر بن گیا تھا۔
اس کہانی کا اصل موڑ 1990 میں آیا، جب مقامی لڑکیوں کی ایک ناتجربہ کار اور خود اعتمادی سے عاری ٹیم ایک نمائشی میچ میں مظفر پور کی شاندار ٹیم کے مقابلے میں بری طرح ہار گئی۔ یہ ہار میدان کی 50 ویں سالگرہ کے موقع پر منعقدہ میچ میں نہ صرف جسمانی چوٹیں لے کر آئی بلکہ ہر کھلاڑی کے عزت نفس کو بھی گہرا زخم دیا۔ کچھ لڑکیاں لنگڑاتی ہوئی واپس آئیں، کچھ کوا سٹریچر پر لے جانا پڑا اور سب کے زخم جسمانی درد سے کہیں زیادہ گہرے تھے۔
اس ذلت آمیز ہار نے شرمندگی نہیں بلکہ ایک پختہ عزم کو جنم دیا۔ سابق فٹ بالر اور مقامی استاد چندر شیکھر، جن کی باتوں میں نسلوں کا تجربہ جھلکتا ہے، اس دن کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں، “ہماری توہین کی گئی تھی لیکن ہم نے اس درد کو ایک مقصد میں بدل دیا۔”
چندر شیکھر بتاتے ہیں کہ اس میدان کی بنیاد آزادی سے پہلے ہی رکھی گئی تھی، جب یمنا بھگت نے جیل سے رہائی کے بعد معاشرے کے پسماندہ طبقات کے نوجوانوں کو تعلیم دینے کے لیے ایک لائبریری قائم کی تھی۔ لیکن اصل تبدیلی 1990 میں آئی، جب انہوں نے میدان کی 50 ویں سالگرہ منانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے مزید کہا، “ہم نے دو ٹیموں کو نمائشی میچ کے لیے بلایا تھا لیکن صرف ایک ٹیم آئی۔ منتظم ہونے کے ناطے ہم شرمندہ تھے اور اچانک ہم نے ایک ٹیم کھڑی کر دی، جس میں کچھ ایسی لڑکیاں تھیں جنہوں نے کبھی فٹ بال نہیں کھیلا تھا۔”
چندر شیکھر کی آواز میں اس دن کا درد آج بھی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، “بدقسمتی سے ہماری کچھ لڑکیوں کی ٹانگیں ٹوٹ گئیں اور زیادہ تر زخمی ہو گئیں۔ اس ہار نے ہمیں اندر تک ہلا دیا۔ ہم اندر سے زخمی تھے۔ پورے گاؤں نے مل کر فیصلہ کیا کہ اب ایک ٹیم بنے گی، ہم کچھ کوچ رکھیں گے اور انہیں پیسے دینے کے لیے ہم چندہ جمع کریں گے۔”
ایک سال بعد اٹوٹ ہمت اور پورے کمیونٹی کے تعاون سے سرشار برونی کی لڑکیاں دوبارہ میدان میں اتریں، نہ صرف کھیلنے کے لیے بلکہ مقابلہ کرنے کے لیے۔ انہوں نے آرہ کو 1-0 سے ہرایا، جس میں سابق اسٹرائیکر پونم بھی شامل تھیں۔ یہ جیت صرف اسکور لائن سے کہیں زیادہ اس پختہ عزم کی گواہی تھی کہ ہم یہاں ہیں اور اب ہم مقابلہ کریں گے۔
اگلے تین دہائیوں میں برونی فٹ بال نے متاثر کیا جس کی قیادت چندر شیکھر جیسے گمنام ہیروز اور سابق موہن باگان گول کیپر سنجیو کمار سنگھ نے کی۔ سنجیو نے تو فوج کی مستقل نوکری بھی چھوڑ کر اپنے پسندیدہ کھیل فٹ بال کے لیے اس میدان کو چنا۔ سنجیو نے بڑی ایمانداری سے تسلیم کیا کہ فٹ بال کے لیے ان کی لگن شاید ان کے خاندان کی ضروریات اور خواہشات کی نظر انداز کا باعث بنی، لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ کسی کو تو یہ ذمہ داری اٹھانی ہی تھی۔
جذباتی سنجیو کہتے ہیں، “میرے خاندان کے لیے شاید میں بیک کار ہوں لیکن میں کچھ نہیں کر سکتا۔ میں ان کی مدد کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن فٹ بال میری پہلی محبت ہے۔ سب اپنی نوکریوں میں مصروف ہیں، اس لیے کسی کو تو یہ ذمہ داری اٹھانی ہی تھی۔ یہ ایک ایسی قربانی ہے، جو کسی مجبوری سے نہیں بلکہ محبت سے آئی ہے۔ یہی وہ قربانی تھی جس نے اس میدان کو 2018 میں سنتوش ٹرافی میچوں کی میزبانی کرنے میں مدد دی اور اب یہ ہندوستان کے اہم یوتھ گیمز کا حصہ بن چکا ہے۔”
بیگوسرائے آج 12 بار کی ریاستی چیمپئن ہے۔ بہار کی ٹیم میں شامل 70 فیصد لڑکیاں اسی علاقے سے ہیں اور یہاں فٹ بال کی ثقافت کمیونٹی کے فخر میں گہرائی سے سمایا ہوا ہے۔ اب برونی کو قومی نقشے پر جگہ مل گئی ہے اور یہاں کھیلو انڈیا یوتھ گیمز 2025 کا انعقاد ہو رہا ہے۔
یہ تین دہائیوں کی خاموش محنت، پورے گاؤں کی فطرت اور دل سے کھیلی گئی فٹ بال کے لیے گونجتی تالیوں کی کہانی ہے، نہ کہ صرف بوٹ پہن کر میدان میں دوڑنے کی۔ کھیل اتھارٹی کے اسکاؤٹس یہاں نوجوان ٹیلنٹ کی شناخت کے لیے موجود ہیں اور یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ان میں سے کئی اسی مٹی سے نکلتے ہیں۔