انتخابی بگل بج جانے کے ساتھ ہی آبادی کے مختلف طبقوں کی طرف سے مطالبات کی بارش شرو ع ہوئی۔ ان مطالبات کو جس انداز اور لہجہ میں سامنے لایا جارہا ہے وہ حیران کن ہے ۔ سنجیدہ سیاسی اور عوامی حلقے مطالبات کے حوالوں سے آبادی کے ان طبقوں کی طرف سے پیش کئے جارہے معاملات کو سیاسی اور جذباتی بلیک میلنگ تصور کیا جارہا ہے اور یہ بھی جتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہ مطالبات پیش کرکے جیسے آبادی کے دوسرے کئی طبقات باالخصوص سٹیٹ پر احسان کیاجارہاہے۔ یہ بھی جتانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ اگر مطالبات ان کی من مرضی کے عین مطابق قبول نہیں کئے گئے تو اُس صورت میں وہ روٹھ کر گھروں میں بیٹھ جائیں گے اور ووٹ مانگنے والوں کو مایوس لوٹادیں گے۔
اس حوالہ سے پاکستان کے زیر کنٹرول جموں وکشمیر کے اُس حصے کے سابق رہائشی جو تقسیم یا اس کے بعد سرحد کے اس طرف سے بحیثیت پناہ گزین رہائش اختیار کرتے رہے اور جن کی قلیل آبادی اب کئی لاکھ تک پہنچ چکی ہے کی ایک تنظیم نے چنائو میںشریک سیاسی پارٹیوں کے نام فتویٰ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پارٹیاں ان کے ۹؍ مطالبات کے تعلق سے اپنا موقف واضح کریں او راگر ان پارٹیوں نے ایسا نہیں کیا تو اُس صورت میں پناہ گزینوں کے ووٹ جس کا حجم عددی اعتبار سے ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہے کسی کے حق میں نہیں پڑیں گے یعنی دوسرے الفاظ میں مطالبات تسلیم نہ کرنے کی صورت میں الیکشن کا بائیکاٹ کریں گے۔
ان ۹؍ مطالبات میں قانون ساز اسمبلی کے حوالہ سے ۸؍ حلقے مخصوص کرنے، ۲۰۱۴ء میں کابینہ کے اجلاس میں منظور پیکیج کی ادائیگی ، کشمیری مائیگرنٹ پنڈتوں کے طرز پر پناہ گزینوں کے حق میں یکساں ریلیف کی منظوری جس کا اطلاق بقول ان کے اُن ۵۳۰۰؍ کنبوں پر بھی ہونا چاہئے جو ملک کے مختلف حصوں میں رہائش پذیر ہیں، ان پناہ گزینوں کے حق میں پہاڑی زمرے کے تحت درجہ تفویض کرنے، انہیں کنٹرول لائن کے اُس پار جانے کی اجازت دیئے جانے تاکہ وہ اپنے مذہبی مقامات پر جاسکیں، جموں وکشمیر بینک کی اُس وقت کی میر پور شاخ میں جو جمع رقوم ان کے کھاتوں میں تھی اس کی ادائیگی وغیرہ خاص طور سے قابل ذکر ہے۔
خواہشات کا اظہار اور مطالبات کو پیش کرنے کا حق لوگوں کو آئین نے ضمانتوں کے ساتھ تفویض کررکھاہے لیکن ان خواہشات کے اظہار اور مطالبات پیش کرتے وقت کچھ لوازمات ، کچھ زمینی حقائق اور تاریخ کے تناظرمیں کچھ لوازمات کی تکمیل، باالخصوص اب تک گذر ے برسوں کے دوران جو کچھ بھی متبادل کے طور او رر سہولیات کے حوالہ سے اور روزمرہ زندگی کے تعلق سے سٹیٹ اب تک انہیں ادا کرچکی ہے اس کو یک لخت نظرانداز کرنا جہاں شعوری جاہلیت کا غماز ہے وہیں ابن الوقتی اور مفاد پرستی کی انتہا بھی ہے۔
ان پناہ گزینوں کو سٹیٹ کی طرف سے زمین کے مالکانہ حقوق دیئے گئے، نقدامداد بھی دی جاتی رہی،وہ تمام سہولیات انہیں دی جاتی رہی جو سہولیات جموںوکشمیر میںکنٹرول لائن کی اِس پار کی آبادی کے مختلف طبقوں کو حاصل ہے۔ یہ مطالبہ کہ قانون ساز اسمبلی میں ان کے لئے ۸؍ حلقے مخصوص رکھے جائیں بادی النظرمیں ہی طفلانہ انداز فکر او رسیاسی بلیک میلنگ ہے۔ کس بُنیاد پر یہ لوگ اس نوعیت کی مانگ کررہے ہیں۔ ڈیڑھ لاکھ ووٹر اور مزید چند ہزار کی آبادی پر مشتمل ان لوگوں کی اس مانگ کو ہی کوئی پیمانہ یا معیار ٹھہرایا جائے تو پھر کنٹرول لائن کے اُس پار کی آبادی کیلئے اسمبلی میں جو ۲۴؍ نشستیں مخصوص رکھی گئی ہیں جو مطالبہ کے تناظرمیں عشر عشیر بھی نہیں جبکہ ان کے مطالباتی معیار کے مطابق کنٹرو ل لائن کے اُس پار کی آبادی کیلئے کم سے کم ۲۰۰؍ سو اور وادی کشمیرمیں حلقوں کی تعداد ۴۰۰؍ ہونی چاہئے جبکہ جموں خطے کیلئے ان کی تعداد کم سے کم آڑھائی سو ہونی چاہئے۔
ڈیڑھ لاکھ ووٹ فیصلہ کن ہے کہ نہیں بے شک سیاسی پارٹیوں، جن کی اکثریٹ ووٹ بینک کی پالیسی اور اپروچ میںزیادہ یقین بھی رکھتی ہے اور عملی طور سے سماج میں ا س کا پرچار بھی کرتی ہیں ان کیلئے ہوسکتا ہے کہ کچھ اہمیت رکھتا ہو لیکن آبادی کے مختلف طبقوں کیلئے اس لئے نہیں کیونکہ وہ طبقاتی بُنیادوں پر اپنے لئے دوسروں کے مقابلے میںمخصوص مراعات کے طالب نہیں ۔ پناہ گزینوں کی تنظیم کا یہ کہنا کہ سیاسی پارٹیاں ان کے مطالبات کی حمایت کرنے سے اس لئے ڈر رہی ہیں کہ آبادی کا کوئی دوسرا طبقہ ان سے ناراض نہ ہوجائے۔
پناہ گزینوں کی اس مخصوص تنظیم کا یہ انداز فکر اور لہجہ علاقہ پر ستی ، طبقاتی ، فرقہ پرستی اور مخصوص فکر کے حوالہ سے شر پسندی سے عبارت ہے۔ ان کا یہ کہنا سوفیصد درست ہے کہ وہ بھی جموں وکشمیرکے باشندے ہیں اور انہیں بھی حقوق حاصل ہیں سے انکار کی گنجائش نہیں لیکن وہ اس بات کو بھی ملحوظ خاطر رکھیں کہ سابق مغربی پاکستان سے بھی پناہ گزینوں کی ایک اچھی خاصی تعداد کو اُس دور کی مرکزی سرکاری، جس کی قیادت پنڈت نہرو کررہے تھے نے ملک میں حالات معمول پرآنے تک جموںوکشمیر میںرہنے پر اُ س دور کی ریاستی حکومت سے درخواست کی تھی لیکن اب وقت گذرتے یہ لوگ بھی ریاست کا حصہ بن گئے اور وہ تمام مراعات حاصل کرتے رہے جس کا انہوںنے ترک سکونت کے وقت اپنی جگہ تصور بھی نہ کیاہوگا۔
معاملات اور واقعات کو اب گذرے زائد از ۷۵؍ برس گذر گئے، جہلم ، راوی، چناب اورتوی میں تب سے اب تک بہت سارا پانی بہہ کر سمندر میں جذب ہوتا رہا لیکن لوگوں کے مطالبات کی تان کہیں تھمتی نظرنہیں آرہی ہے۔ ووٹ دینا یا نہ دینا رائے دہندگان کی اپنی مرضی اور پسند پر منحصر ہے، ووٹ ملک کے ہر شہری کا آئینی اور جمہوری حق ہے۔ کوئی نہ بھی دے تو اس کی بھی عوامی نمائندگان سے متعلق مروجہ ایکٹ میں گنجائش اور اجازت ہے۔ لیکن یہ کہنا کہ مطالبات نہ ماننے کی صورت میں بائیکاٹ کیاجائے گا بلیک میلنگ ہی نہیں بلکہ ان کے چھوٹا پن کو ظاہر کرتا ہے۔