سرینگر//
قوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے غزہ میں فوری جنگ بندی کی قرارداد منظور کرتے ہوئے تمام یرغمالیوں کی فوری اور غیر مشروط رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکہ نے اس قراردار پر ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا جبکہ سلامتی کونسل کے۱۵میں سے ۱۴؍ارکان نے قرارداد کی حمایت کی۔
فوری جنگ بندی کی یہ قرارداد سلامتی کونسل کے۱۰ رکن ممالک نے پیش کی‘جن میں الجزائر، جاپان، ایکواڈور ، سوئٹزرلینڈ، جنوبی کوریا، مالٹا اور دیگر ممالک شامل ہیں۔
خیال رہے کہ اس سے قبل بھی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں غزہ میں جنگ کے حوالے سے۴قراردادیں پیش کی گئیں تھیں تاہم ان میں سے کوئی بھی قرارداد منظور نہیں ہوسکی۔
واضح رہے کہ غزہ کی وزارتِ صحت کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر ۲۰۲۳ کے بعد غزہ میں اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی تعداد ۳۲ ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔
اسرائیل پر فلسطین میں جاری کارروائیوں کے بعد سے عالمی دْنیا کی جانب سے دباؤ کا بھی سامنا ہے کہ وہ اس بات کے شواہد بھی دْنیا کے سامنے پیش کرے کے اس کی کارروائیاں صرف حماس کے خلاف ہیں۔
اسرائیلی فوج کا دعویٰ ہے کہ حماس کے سات اکتوبر کے حملوں میں۱۲۰۰؍ افراد کی ہلاکت کے جواب میں اب تک حماس کے۱۰ہزار جنگجو فضائی حملوں اور زمینی کارروائیوں میں مارے گئے ہیں۔
اسرائیلی فوج نے مسلسل اپنی حکمت عملی کا دفاع کیا ہے اور مْصر ہے کہ وہ عام لوگوں کی ہلاکتوں کو کم سے کم رکھتے ہوئے صرف حماس کے جنگجوؤں اور تنصیبات کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔
اس سے قبل پیر ہی کے روز اسرائیل نے چار یورپی ممالک کو متنبہ کیا کہ اْن کی جانب سے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے جاری منصوبہ بندی اس تنازع کو کم کرنے کے لیے ہونے والے مْمکنہ مذاکرات کے امکانات کو کم کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔
واضح رہے کہ سپین کی جانب سے جمعے کو جاری ہونے والے ایک بیان میں ’مشرقِ وسطیٰ میں امن‘ کے نام سے ایک معائدے سے متعلق بتایا گیا تھا۔
سپین کی جانب سے کہا گیا تھا کہ اْس سمیت آئرلینڈ، مالٹا اور سلووینیا نے اسرائیل کے زیرِ قبضہ مغربی کنارے اور غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں کی جانب سے اعلان کردہ ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے پہلا قدم اٹھانے پر اتفاق کیا ہے۔
اسرائیلی وزیر خارجہ اسرائیل کاٹز کی جانب سے ایکس (سابق ٹویٹر) پر جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ ’۷؍ اکتوبر کے قتل عام کے بعد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے سے حماس اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کو یہ پیغام جاتا ہے کہ اسرائیلیوں پر قاتلانہ دہشت گرد حملوں کا جواب فلسطینیوں کو سیاسی یا بات چیت کی صورت میں دیا جائے گا۔‘
اْن کا مزید کہنا تھا کہ ’تنازع کا حل صرف فریقین کے درمیان براہ راست مذاکرات کے ذریعے ہی ممکن ہو گا۔ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے میں کسی بھی طرح کی شمولیت صرف ایک حل تک پہنچنے کی کوشش میں خلل کا باعث بنے گی اور نہ صرف یہ بلکہ اس سے علاقائی عدم استحکام میں اضافہ ہوگا۔‘