اپنے کشمیر میں دو طرح کی خود کشی ہو تی ہے… دو قسموں کی … ایک وہ جو ارادتاً کی جاتی ہے… پنکھے سے لٹک کے کی جاتی ہے اور ایک وہ جو جہلم میں کود کر…بے چارے جہلم کو خود کشیوں کا زیادہ بوجھ سہنا پڑتا ہے …کیوں کہ خود کشی کرنے والوں کیلئے یہ زیادہ پسندیدہ آپشن ثابت ہو رہا ہے… کشمیر کے کسی بھی پل پر کھڑا ہو کر جہلم میں آرام سے چھلانگ لگائی جاتی ہے یا لگائی جا سکتی ہے اور… اور اپنی زندگی کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے… اور شاید آخرت کا بھی کہ… کہ خود کشی اسلام میں حرام ہے …یہ اتنی نا پسندیدہ کہ خود کشی کرنے والی کی نماز جنازہ بھی جائز نہیں ہے …بالکل بھی نہیں ہے۔ یہ تورہے ارادتاً خودکشی کرنے والے … دوسرے لوگ ‘ وہ نوجوان ہیں جنہیں خود کشی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہو تاہے… جو زندگی کو جینا چاہتے ہیں‘ اس سے لطف اٹھانا چاہتے ہیں… اس کے مزے لوٹنا چاہتے ہیں … کانٹا چبھنے پر بھی خون کے آنسو رووتے ہیں…لیکن … لیکن پھر بھی یہ خود کشی کرتے ہیں… تیز موٹر سائیکل یا گاڑی چلا کر … کہ ہمارا ماننا ہے کہ تیز… بہت رفتار سے موٹر بائیک یا گاڑی چلانا بھی خودکشی کے مترادف بھی ہے کہ اس کا انجام بھی بیشتر اوقات موت ہی ہوسکتا ہے… جیسا کہ ہم نے جمعہ کو بلیوارڈ میں دیکھا … کیسے کچھ نوجوان بائیک سوار … بائیک پر سوار ہو کر ہوا سے باتیں کررہے تھے … ان کی رفتار اتنی تیز تھی کہ … کہ یہ بائیک چلا نہیں رہے تھے … بلکہ اسے اڑا رہے تھے… اور نتیجہ وہی ہوا … جو ہونا چاہئے تھا… یا جو بیشتر ہو تاہے… ایک موٹر سوار کی موت اور دوسرا شدید زخمی ہوا ۔آپ اسے حادثہ کہہ سکتے ہیں… لیکن ہم نہیں … ہم اسے سیدھا خود کشی کہیں گے… ہمارے لئے یہ خود کشی ہے اور کچھ نہیں … بالکل بھی نہیں ۔بغیر ہلمٹ کے اتنی تیز رفتار میں بائیک چلانے کو خود کشی ہی کہہ سکتے ہیں اورکچھ نہیں … بالکل بھی نہیں ۔اس سے پہلے بھی ہم نے راج باغ میں تیز رفتار گاڑی کو ہوا میں کئی قلا بازیاں کھاتے دیکھا … ہم نہیں جانتے ہیں کہ… کہ اس کیلئے ایسے نوجوانوںکے والدین کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جا سکتا ہے یا نہیں… ہم نہیں جانتے ہیں… لیکن… لیکن ایک بات ہم ضرور جانتے ہیں اور… اور وہ یہ ہے کہ… کہ بائیک یا گاڑی کی چابی ہاتھ میں تھمانے پر ہی والدین کی ذمہ داری ختم نہیں ہو تی ہے… ختم نہیں ہو سکتی ہے… بالکل بھی نہیں ہو سکتی ہے ۔ہے نا؟