نئی دہلی//
انتخابات سے چند ہفتے قبل ایک اہم حکم میں سپریم کورٹ نے ایک بار پھر الیکشن کمشنروں کی تقرری کے قانون پر روک لگانے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس مرحلے پر ایسا کرنے سے افراتفری پھیلے گی۔
جمعرات کو سماعت کے دوران یہ تبصرہ کرتے ہوئے عدالت نے یہ بھی نوٹ کیا کہ نئے مقرر کردہ الیکشن کمشنر گیانیش کمار اور سکھبیر سنگھ سندھو کے خلاف کوئی الزام نہیں ہے، جنہیں نئے قانون کے تحت سلیکشن پینل میں تبدیلی وں کے بعد منتخب کیا گیا تھا۔
جسٹس سنجیو کھنہ اور جسٹس دیپانکر دتہ کی بنچ نے کہا’’آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ الیکشن کمیشن ایگزیکٹیو کے انگوٹھے کے نیچے ہے‘‘۔
عرضی گزاروں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ یہ نہیں مانا جا سکتا کہ مرکز کے ذریعہ بنایا گیا قانون غلط ہے ، بنچ نے مزید کہا ’’جن لوگوں کی تقرری کی گئی ہے ان کے خلاف کوئی الزام نہیں ہے۔ انتخابات قریب ہیں۔ سہولت کا توازن بہت اہم ہے۔‘‘
چیف الیکشن کمشنر اور دیگر الیکشن کمشنرز (تقرری، خدمات کی شرائط اور مدت ملازمت) بل۲۰۲۳ کو پارلیمنٹ نے گزشتہ سال منظور کیا تھا اور اس کے بعد صدر جمہوریہ کی منظوری مل گئی تھی۔
نئے قانون نے چیف جسٹس آف انڈیا کی جگہ الیکشن کمشنروں کے انتخاب کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی جس میں مرکزی کابینہ کے وزیر کو شامل کیا گیا تھا۔ کمیٹی میں اب وزیر اعظم، مرکزی کابینہ کے وزیر اور قائد حزب اختلاف شامل ہیں، جو اس کی غیر جانبداری پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے پینل کی جانب سے گیانیش کمار اور سکھبیر سنگھ سندھو کے انتخاب کے بعد لوک سبھا میں کانگریس کے لیڈر ادھیر رنجن چودھری نے دعویٰ کیا تھا کہ انہیں ایک رات پہلے جانچ کیلئے۲۱۲ نام دیئے گئے تھے اور میٹنگ سے ٹھیک پہلے چھ ناموں کی شارٹ لسٹ دی گئی تھی۔
کمیٹی میں وزیر اعظم نریندر مودی، مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ اور مسٹر چودھری شامل تھے۔ کانگریس کے سینئر لیڈر نے کہا تھا کہ چیف جسٹس آف انڈیا کو اس کمیٹی میں ہونا چاہئے تھا اور نئے قانون نے اس میٹنگ کو ایک رسمی اجلاس تک محدود کردیا ہے۔