اتفاق سے وہ بھی ۷ویں تاریخ تھی… مہینہ البتہ نومبر اور سال ۲۰۱۵تھا جب ویر اعظم نریندر مودی نے سرینگر میں وزیر اعلیٰ ‘مرحوم مفتی ممد سعید کی موجودگی میں ایک عوامی ریلی سے خطاب کیا تھا… جموں کشمیر میںپی ڈی پی اور بی جے پی کی مخلوط حکومت تھی ۔ مفتی نے پہلے ریلی سے خطاب کیا جس میں انہوں نے اور باتوں کے علاوہ مسئلہ کشمیر کے’حل‘ کیلئے ہمسایہ ملک پاکستان سے بات چیت پر زور دیا…مودی جی کی جب باری آئی تو انہیں مفتی کا یہ مشورہ… پاکستان سے کشمیر پر بات چیت کا مشورہ اتنا ناگوار گزرا کہ انہوں نے سٹیج پر مفتی کی موجودگی کا کوئی پاس لحاظ نہ رکھتے ہوئے واضح الفاظ میں کہا کہ انہیں کشمیر پر‘ پاکستان پر کسی کے مشورہ کی کوئی ضرورت نہیں ہے… بالکل بھی نہیں ہے … اندازہ کیجئے کہ وزیر اعظم کے اس برجستہ جواب سے بے چارے مفتی کے دل پر کیا گزری ہو گی… مفتی اس کے کچھ ہی دنوں بعد بیمار ہو گئے اور… اور پھر اللہ میاں کو پیا رے ہو گئے… آج ۹ سال بعد وزیر اعظم سرینگر میں ایک اور ریلی سے خطاب کرنے جا رہے ہیں… مودی ایک بدلے ہوئے کشمیر میں خطاب کرنے جا رہے ہیں… جہاں اب علیحدگی پسندی ہے‘ نہ دہشت گردی ہے ‘ پتھراؤ ہے اور نہ ہڑتالیں ہیں‘ شہری ہلاکتیں ہیں اور نہ دیش مخالف نعرے بلند ہو تے ہیں… دفعہ ۳۷۰ بھی نہیں ہے‘ ۳۵؍ اے بھی نہیں ہے… عوامی حکومت بھی نہیں ہے ‘ ریاستی اسمبلی بھی نہیں ہے… حتیٰ کہ ریاست بھی نہیں ہے… پاکستان سے بات چیت کا مطالبہ کرنے والے مفتی بھی نہیں ہیں… پاکستان سے بات چیت کو ضروری سمجھنے والے بھی نہیں ہیں… مودی جی کو کوئی مشورہ دینے والا بھی نہیں ہے… اور یقینا انہیں کوئی مشورہ دے گا بھی نہیں … لیکن… لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ… کہ انہیں مشورہ دینے کی ضرورت نہیں ہے… بالکل بھی نہیں ہے… انہیں مشورہ دینے کی ضرورت ہے اور… اور وہ مشورہ یہ ہے کہ جناب الیکشن کا موسم سر پر ہے… الیکشن کو جمہوریت میں ایک تہوار کے طور پر منایا جاتا ہے… لوک سبھا الیکشن تو ہونے والے ہی ہیں… لگے ہاتھوں اگر مودی جی جموں کشمیر میں اسمبلی الیکشن کے بارے میں بھی ایک دو بول بول دیں اور ساتھ میں ریاستی درجہ کی بحالی کا وعدہ بھی پورا کریں تو… تو جو کوئی ابھی نہیں یہ مشورے دے گا ہمیں یقین ہے کہ مودی جی اسے بھی جواب میں وہ سب کچھ نہیں کہیں گے جو انہوں نے مرحوم مفتی سے کہا تھا… یہ کہا تھا کہ مجھے کشمیر پر کسی کے مشورے کی ضرورت نہیں ہے… بالکل بھی نہیں ہے۔ ہے نا؟