ہر گذرتے دن کے ساتھ ہمارا یہ یقین پختہ اور تاثر مستحکم ہوتا جارہا ہے کہ کشمیر کی سیاسی افق پراگندہ سے پراگندہ ترقی کی جانب گامزن ہے ۔ ہر سیاستدان اور ہر پارٹی اپنے حقیر اور ذاتی مفادات کی جنگ میں الجھا ہوا ہے ، ایک دوسرے کی کردار کشی اور طعنہ زنی اب ان کا روز مرہ معمول سے کہیں زیادہ ان کے ایمان کا اول کلمہ بن رہا ہے، لوگوں کی خواہش کیا ہے، لوگ کیا چاہتے ہیں اُن سے انہیں غرض نہیں بس حصول اقتدار کی ایک ایسی جنگ چھیڑ دی گئی ہے کہ اس سیاست اور اس سیاست کے پیش کاروں پر سے عوام کا اعتماد اور بھروسہ ختم ہوتاجارہا ہے جبکہ اس سیاسی نظام یا سیاسی سمت جس کو پروان چرھایا جارہا ہے خود غرضی، مفادات کے حصول، لالچ، ہوس گیری اور عوامی جذبات سے کھلواڑ اور ناجائز استحصال سے عبارت اب تصور کیا جارہا ہے۔
سیاسی منظر نامہ میں یہ انحطاط اور تنزلی کیوں، اس کے کئی ایک وجوہات ہیں البتہ ہر وجوہ کا احاطہ کرنا ممکن نہیں کیونکہ کرنے کی صورت میں بات بہت دور تک جائیگی اور اُس دوری کے آخری سرے پر تعفن، غلاظت ، بدبو کے ساتھ ساتھ ہاتھ انسانی لہو رنگ، دھوکہ ، جعلسازی، فریب اور ریاکاری سے عبارت ایک ایسی دلدل کا سامنا ہوگا جو واپسی کے سفر تک کو ناممکن بنا سکتی ہے ۔
کشمیر کا یہ ایک ایسا المیہ ہے جس کی نظیر نہیں ملتی ہے ۔ لوگ اس المیہ اور سنگین نوعیت کے صدمہ سے کب تک دوچار رہینگے اور کیا وہ خود کو اس سیاسی دلدل کے سیاسی دلالوں سے آزاد کرپائیں گے یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا فی الحال کوئی جواب نہیں۔ مختلف نظریات اور موقفوں کے حامل سیاستدانوں کی ایک دوسرے کی کردار کشی اور طعنہ زنی نے کشمیر کی سیاسی افق کو ٹرمپ،عمر انڈو، برزیلی اور ان سے مشابہہ سیاسی کرداروں اور سیاسی منظر نامہ کے قریب کردیا ہے، اب نہ کسی اخلاقیات کا لحاظ رکھا جارہا ہے اور نہ ہی ایک دوسرے کا ہی احترام ملحوظ خاطر رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔
اگرچہ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ کشمیر کی سیاست سے وابستہ کم و پیش سارے سیاسی کردار ایک ہی حمام سے وابستہ ہیں، یہ ایک ایسا تعلق اور رشتہ ہے کہ جو انہیں ایک دوسرے کی چولی کے پیچھے کیا کچھ ہے کے رازوں سے بھی واقف ہے۔ تقاضہ تو یہ تھا کہ یہ ایک دوسرے کی پردہ پوشی کرتے اور اپنے سیاسی اہداف اور حقیر مفادات کو کسی ترجیح میں زیادہ نہ رکھتے ہوئے عوام کے مفادات اور حقوق کے حصول اور تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے خود کو وقف رکھتے لیکن اب غالباً یہ ناممکن نظر آرہا ہے کیونکہ اے ٹیم اور بی ٹیم کی طعنہ زنی اور اس حوالہ سے کی جارہی کردار کشی نے جواب میں بھی اے اور بی ٹیم کے نعرے بلند ہونا شروع ہوچکے ہیں ۔
غلام نبی آزاد ریاست کے وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں، مرکز میں بھی وزارتی عہدوں اور اعلیٰ لیڈر شپ کے منصبوں پر متمکن رہے ہیں انہیں اپنے سابقہ کچھ دوستوں نے بی جے پی کا شکمی شریک قرار دے کر عوام کے سامنے ایک نیا تعارف کے ساتھ پیش کیا، جوابی وار کرتے ہوئے آزاد نے بھی ٹیموں کی گنتی کر ڈالی۔ یہ بھی کہا کہ یہ لیڈر رات کی تاریکی میں ان سیاسی لیڈروں سے ملتے رہے ہیں جن کے خلاف یہ بیان بازی کررہے ہیں ۔ اسی طرح نیشنل کانفرنس کی لیڈر شپ نے سجاد غنی لون اور سید الطاف بخاری وغیرہ کو بھی اے بی ٹیموں کا لقب عطا کیا، پلٹ وار کرتے ہوئے ان دونوں نے وہ سب کچھ کہا جو اس سیاسی حمام کے ننگوں کی حیثیت سے ان کی علمیت میں رہا ہے ۔
جب ہم یہ دلیل دے رہے ہیں یا استدلال پیش کررہے ہیں کہ یہ سیاسی منظر نامہ ب بحیثیت مجموعی کشمیر کا سب سے بڑا لمیہ ہے تو اس کے پیچھے ان ہی سیاست کاروں کی ماضی اور ماضی قریب کی وہ خرمستیاں اور ملازمانہ کردار کے حوالے سے انداز فکر اور اپروچ ہے جو عوام کی توجہ اورنگاہوں سے پوشیدہ نہیں ہے۔ اب اس دلیل اور استدلال میں کشمیر کے معاملات کے تعلق سے وہ ـغیر سنجیدگی اور غیر ذمہ دارانہ اور سب سے بڑھ کر بے اعتنائی سے عبارت طرز عمل ہے جس کا اب کچھ عرصہ سے قریب سے مشاہدہ کیا جارہا ہے ۔
جموں کا سیاسی منظر بلا شبہ مختلف سیاسی عنصر کے حوالے سے اختلافی ہے لیکن سیاسی لیڈر شپ ایک دوسرے کی کردار کشی اور طعنہ زنی نہیں کررہی ہے ۔ آپس میں ان کے لاکھ اختلافات ہوسکتے ہیں اور ہونگے بھی لیکن انکا نریٹو’’ جموں اور جموں کا عوام‘‘ ہے ۔ لداخ اور کرگل کی سیاسی لیڈر شپ کے درمیان بھی کئی معاملات پر نظریاتی اور سیاسی اختلافات ہیں لیکن دونوں ضلعوں کی لیڈر شپ آپس میں مل کر اور ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر عوام کے معاملات، ضروریات اور خواہشات کیلئے مشترکہ جدوجہد کررہی ہے۔ ان کا ایک متفقہ نریٹو ہے چاہے اس کا تعلق سٹیٹ ھڈ سے ہے، زمین اور ملازمت کے تحفظ سے ہے، انتظامیہ کے حوالے سے حساس نوعیت کے کچھ امورات سے ہے ۔
اس کے برعکس کشمیر کا نریٹو کیا ہے ، خود کشمیر کو اس بارے میں علمیت نہیں ، کیونکہ کسی سیاسی عنصر نے کشمیر کیلئے کسی ایک اور متفقہ نریٹو اختیار کرنے کے حوالے سے اپنے کسی دوسرے سیاسی حریف سے بات کی اور نہ نریٹو طے کرنے کیلئے پہل کی۔ تمام تر توجہ اور توانائی الیکشن کے انعقاد اور حصول اقتدار کی تگ و دو تک محدود ہے ۔اس میں دو رائے نہیں کہ لوگ بھی اس حوالہ سے اپنا جمہوری حق چاہتے ہیں لیکن اس کے علاوہ بہت سارے معاملات ہیں جو توجہ اور ترجیح کا تقاضہ کررہے ہیں۔ اس ضمن میں کشمیر کی سیاست اور سیاسی قیادت کے سارے دعویدار غیر سنجیدہ ، غیر ذمہ دار اور بے اعتناہی ثابت ہو رہے ہیں۔ کشمیر کو اس تعفن زدہ ماحول سے آزاد کرنے کیلئے کیا کچھ کرنا چاہئے یہ سوال عام لوگوں کی بھی توجہ کا محور و مرکز بننا چاہئے۔