کچھ نہیں بلکہ بہت سے لوگوں کو غصہ ہے… انہیں اس بات پر غصہ ہے کہ امریکی صدر‘جیو بائیڈن کیسے اتنے بے حس ہو سکتے ہیں کہ … کہ غزہ میں اتنے بڑے انسانی المیے پر آئس کریم کے مزے لے لے کر بات کریں؟لوگوں کو بائیڈن کے آئس کریم کھانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے …انہیں اگر شکایت ہے‘ گلہ ہے تو اس ایک بات کا کہ… کہ کیسے ایک امریکی صدر غزہ میں اتنے بڑے انسانی المیے کو اتنا ہلکا لیں کہ… کہ اس پر بات چیت کے دوران وہ آئس کریم سے لطف اندوز ہوں… صاحب بات تو صحیح ہے… سو فیصد صحیح لیکن… لیکن کیا ان لوگوں کو‘ جنہیں بائیڈن کے اس رویے ‘ ان کی اس بے حسی پر اعتراض ہے‘ کیا انہیں امریکی صدر سے کسی خیر ‘ کسی اچھائی کی امید تھی جو وہ ان کی اس حرکت پر اعتراض کررہے ہیں؟گزشتہ سال اکتوبر‘ جب سے اسرائیل نے غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجانا شروع کردی‘ جب سے اس نے حماس پر حملوں کی آڑ میں عام لوگوں ‘جن میں اکثریت معصوم بچوں اور خواتین کی ہے‘ کے معصوم خون سے اپنے ہاتھ رنگ دئے … بائیڈن کا کردار کیا رہا ہے؟اگر اس کا تھوڑا سا بھی جائزہ لیا جائے تو…تو پھر کوئی ان کے آئس کریم کھانے کے دوان غزہ پر بات کرنے پر اعتراض نہیں کریگا اور … اور بالکل بھی نہیں کرے گا کہ… کہ امریکہ سے ‘ امریکی صدر سے یہی توقع کی جا سکتی ہے…اپنے دفاع کے نام پر اسرائیل جو کچھ بھی فلسطینیوں کے ساتھ کررہا ہے… اگر امریکہ اور اس کا صدر سچ میں انصاف پسند ہوتے تو… تو غزہ کا آج جو حال ہے وہ نہیں ہوتا… غزہ کھنڈرات میں تبدیل نہیں ہوا ہوتا… غزہ میں زائد از ۳۰ہزار لوگ ہلاک نہیں ہوئے ہوتے… لیکن صاحب سچ تو یہ ہے کہ ’امن ‘ کے زمانے میں بھی اور جنگ کے دوران بھی امریکہ اور بائیڈن نے اسرائیلی جارحیت سے چشم پوشی کی… اسرائیل تمام بین الاقوامی قوانین کو روندتا چلا گیا… لیکن امریکہ نے اُف تک نہیں کی اور… اور اس لئے نہیں کی کیونکہ… اسرائیل اپنے دفاع کے نام پر ‘ دہشت گردی کیخلاف جنگ کے نام پر جو معصوموں… فلسطین کے معصوموں کا خون بہا رہا ہے… اس کی لائسنس اسے کسی اور نے نہیں بلکہ امریکہ نے دی ہے … اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو… تو یقین کیجئے کہ اسرائیل غزہ میں جو کچھ بھی کررہا ہے…وہ ایسا کرنے کی جرأت نہیں کرتا… بالکل بھی نہیں کرتا ۔ ہے نا؟