نئی دہلی//صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے پیر کو یہاں لیڈی ہارڈنگ میڈیکل کالج کے 107ویں سالانہ دن اور کانووکیشن میں شرکت کی۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر جمہوریہ نے کہا کہ اب میڈیکل سائنس صرف علاج تک محدود نہیں رہی۔ اس کا دائرہ بہت وسیع ہو گیا ہے ۔ چوتھے صنعتی انقلاب کی وجہ سے طبعی، ڈیجیٹل اور حیاتیاتی شعبوں کے درمیان فاصلہ کم ہو رہا ہے ۔ سنتھیٹک بایولوجی میں نئے تجربات اور سی آر آئی ایس پی آر جین ایڈیٹنگ جیسی نئی ٹیکنالوجیز صدیوں سے جاری مسائل کا حل تلاش کرنے میں مددگار ثابت ہو رہی ہیں لیکن ان ٹیکنالوجیز کے غلط استعمال کا مسئلہ بھی برقرار ہے ۔ انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ طبی برادری اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں اخلاقیات اور اعلیٰ اقدار کے مطابق کام کرے گی اور ‘ایک صحت’ کے مربوط نقطہ نظر سے تمام مسائل کو حل کرنے کی کوشش کرے گی۔
مسز مرمو نے کہا کہ لوگ ڈاکٹروں کو بھگوان مانتے ہیں، اس لیے ڈاکٹروں کو اس اخلاقی ذمہ داری کو سمجھنا چاہیے اور اس کے مطابق برتاؤ کرنا چاہیے ۔ وہ حقیقی معنوں میں کامیاب ڈاکٹر یا نرسیں تبھی ہوں گے جب وہ پیشہ ورانہ قابلیت کے ساتھ ہمدردی، مہربانی اور ہمدردی جیسی انسانی اقدار کے مالک ہوں گے ۔ صحت کی دیکھ بھال کرنے والے ایک بہتر پیشہ ور بننے کے لیے ایک اچھا انسان بننا بھی ضروری ہے ۔ انہوں نے کہا کہ گاندھی جی نے بھی کردار کے بغیر علم اور انسانیت کے بغیر سائنس کو گناہ قرار دیا ہے ۔ اس لیے ڈاکٹروں کا بنیادی مقصد پیسہ کمانا نہیں ہونا چاہیے ، بلکہ ‘خود سے پہلے خدمت’ ہونا چاہیے ۔
صدر نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ انسٹی ٹیوٹ کو آرگن ٹرانسپلانٹ ریکوری سنٹر کے طور پر رجسٹر کیا گیا ہے ۔ انسٹی ٹیوٹ نے اینتی مائیکروبیال مزاحمت کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ایک جامع اینٹی بائیوٹک اسٹیورڈشپ پروگرام شروع کیا ہے ۔ یہ دوسرے اداروں کے ساتھ مل کر آئی ڈرعون اقدام کے تحت بلڈ بیگ ڈلیوری پر بھی کام کر رہا ہے ۔ انہیں یہ جان کر خوشی ہوئی کہ اس انسٹی ٹیوٹ نے حکومت ناروے کے ساتھ مل کر ایک نیشنل ہیومن ملک بینک اور بریسٹ فیڈنگ کاؤنسلنگ سنٹر ‘واتسلیہ [؟] ماتری امرت کوش’ قائم کیا ہے ۔ انہوں نے یقین ظاہر کیا کہ یہ مرکز ماں کا دودھ پلانے کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے اور بچوں کی شرح اموات کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوگا۔