بندوق سے قبل جو کشمیر تھا بندوق آنے کے بعد وہ کشمیر باقی نہیں رہا۔ اُس کشمیر کا سارا لینڈ سکیپ بدل گیا، بندوق کو آئے زائد از تیس سال ہوگئے اس مدت کے دوران کشمیر کی زندگی ہر شعبے اور ہر پہلو کے حوالہ سے بدلتی گئی، وہ اعلیٰ اقدار، اعلیٰ روایات اور ارفع اصول اب داستان پارینہ بن چکے ہیں ان کی جگہ جو کچھ اب نظرآرہا ہے وہ ہر ذی حس کیلئے تکلیف دہ ، روح فرسا اور پریشان کن ہے۔
کیا یہ بندوق کی دین ہے یا لوگوں کی بدلتی ترجیحات ، حتمی طور سے کچھ کہا نہیں جاسکتا لیکن بادی النظرمیں یہی محسوس کیاجارہاہے کہ یہ جو کچھ بدلائو آیا اور جس بدلائو کا تسلسل جاری ہے وہ بندوق کے آنے کے بعد ہی شروع ہوا۔ اس بندوق نے کشمیر کا معاشرتی تانا بانا تہہ وبالاکرکے رکھدیا ہے ، اب حالت یہ ہے کہ اس پوری مدت کے دوران نہ صرف اخلاقیات کا جنازہ نکالا گیا بلکہ معاشرتی سطح پر اب وہ سب کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے جس کو دیکھ کر ماضی میںکشمیرکا اوسط شہری دوسروں کو طعنہ دیتا تھا لیکن وہی سارا اس کی ناک کے نیچے ہورہاہے لیکن وہ خاموش ہے کچھ بھی نہیں کرپارہاہے۔
منشیات کا استعمال، مختلف چہروں والے جرائم کا ارتکاب، قتل، ڈکیتی، راہ زنی، عصمت دری ، اغوا، بدکاریاں، دھوکہ دہی، جعلسازی، فریب، ریاکاری، اب کشمیر کے لینڈ سکیپ پر کیا کچھ نظرنہیں آرہاہے ۔ گھر تباہ ہورہے ہیں، سکون قلب تہس نہس، اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان نسل کشمیرکی سرزمین کو اپنے لئے بنجر پاکر کشمیراور ملک کی سرحدوں سے بہت دور بھاگ کر اپنے لئے روزی روٹی اور کیرئیر کی تلا ش میں در در ٹھوکریں کھارہاہے، ہزاروں ہاتھ مہندی کو ترس رہے ہیں جبکہ اس حوالہ سے مخصوص ذہنیت کے حامل سرمایہ دار طبقہ نے دجالی اور شیطانی روپ دھا کر شادی بیاہ کے مقدس رشتے کو دُنیاوی عیاشی اور مادہ پرستی کی نذر کرکے رکھدیا ہے۔
مختلف جرائم کے حوالہ سے پولیس کے پاس جو ریکارڈ اور شہادتوں کی صورت میں دستیاب ہے وہ لرزہ خیز ہے اور یقین کرنا مشکل ہورہا ہے کہ یہ ہمارے کشمیرمیں ہورہاہے جس کشمیر میں ماضی میںمعمولی جرم بھی کسی سے سرزد ہوا کرتاتھا تو بزرگ آسمان کی طرف نگاہیں اُٹھاکرکہتے کہ آسمان بھی رورہا ہے لیکن آج اسی کشمیرمیں ایک ماں اپنے نشہ کے عادی بیٹے کے ہاتھوں لہولہاں ہورہی ہے، بے عزت ہورہی ہے اور اپنی زندگی بھر کی پونجی اپنے اسی منشیات کے مجرم بیٹے کے ہاتھوں لٹتی اور لوٹتی دیکھ رہی ہے۔
کچھ درندہ صفت اور خصلت کے حامی اپنے گھروں تک کے سکون اور عزت اور خونی رشتوں کا تقدس اور حرمت تک خاک میں ملا کے رکھ رہے ہیں۔ اب تک کتنے ہی درندہ صفتوں کو عدالتوں نے سلاخوں کے پیچھے باقی ماندہ زندگی بسر کرنے کیلئے ڈالدیا ہے لیکن اس کے باوجود عبرت کہیں نظرنہیں آرہی ہے۔ مادہ پرستی کی دوڑ میں شامل ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے تو دیکھے جارہے ہیں لیکن اس دوڈ میں شامل اپنے حال سے تو ہے ہی البتہ مستقبل کے حوالوں اور ممکنہ مضمرات اور سنگین نوعیت کے نتائج اور اثرات سے بے پروا ہیں۔
مذہبی عقیدوں اور نظریات کے حوالوں سے مسلک تو پہلے سے موجود ہیں لیکن ان کی موجودگی کے باوجود رواداری قدم قدم پر سایہ فگن نظرآرہی تھی لیکن اب اس میں بھی تبدیلیاں ہوتی جارہی ہیں۔ ایک مسلک سے وابستہ دوسرے مسلک کی برائی اور نشانہ بنانے سے نہیں چوکتا، اب کچھ مفتی نما مولوی حضرات کو محسن کشمیر میر سید علی ہمدانیؒ کی اوراد فتحیہ میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت نہیں نعوذ باللہ گمراہی نظرآرہی ہے، شاعر مشرق علاقہ اقبالؒ کے کلام میں بھی گمراہی دکھائی دے رہی ہے،کسی اور مفتی نما مولوی کو اپنی واعظ وتبلیغ کی مجلسوں میں جن کی موجودگی دکھائی دے رہی ہے اور یہ وہ جن ہے جو بقول متذکرہ مولوی کے سلفی نظریات کا حمایتی ہے۔ اس تعلق سے اور بھی بہت کچھ اب دیکھنے سُننے اور پڑھنے کو مل رہا ہے۔ کیا ہی بہتر ہوتا اگر یہ لوگ اپنی مجلسوں میں قرآن وسنت کی تشریح کا درس دے کر موجود لوگوں کی علمیت میں اضافہ کا رول ادا کرتے ؟
۹۰ ء کی دہائی کی وسط میں کشمیر میں تعینات ایک فوجی آفیسر نے ایک مخصوص واقعہ کے تناظرمیں ملاقات کے دوران مجھے بتایا کہ ’’یادرکھو بندوق تو کشمیرمیںلایا گیا لیکن یہی بندوق جس کے بل بوتے پر بہت سارے معاملات طے کئے جارہے ہیں آنے والے وقتوں میں کشمیرکا ہرپہلو کے حوالہ سے نقشہ بدل کے رکھدے گا، یہ بندوق جو آج طاقتور ہے آنے والے وقتوں میںکمزور تو ہوجائے گا لیکن مرے گا نہیں اور نہ اسے مختلف مفاد پرست حلقے مرنے دیں گے یہ بندوق اب کشمیرکی زندگی بھر کا روگ بن جائے گا‘‘۔
واقعی ایسا ہی ہورہا ہے ۔ کشمیر بدل رہا ہے ، وہ کشمیر اب کہیں نظرنہیں آرہاہے جس کشمیر کو ہم اپنے بچپن اور لڑکپن میںدیکھا کرتے تھے۔ اُس کشمیرکو تنزل کی اس ڈگر پر گامزن کرنے میں جن لوگوںنے اہم کردار ادا کیا اُن میں کئی سیاستدان، کئی مذہبی پیشوا، کئی مسلکوں سے وابستہ رہنما، سول سوسائٹی کے حوالہ سے کئی ایک ایکٹرس جبکہ سٹیٹ اور نان سٹیٹ ایکٹرس کا رول اور کردار الگ سے رہا ہے۔
کشمیرمیں اس تبدیلی کو ہر اعتبار سے ممکن بنانے کی سمت میں کچھ غیر ملکی طاقتوں اور حکومتوں نے بھی اپنے اپنے مفادات کو ملحوظ خاطر رکھ کر رول اداکیا، فنڈنگ کرتے رہے، جس کے نتیجہ میں جہاں مسلکی نظریات اور اختلافات کو بھڑکانے میں نیا آکسیجن ملا وہیں کشمیر کی معاشرتی زندگی کا تانا بانا بھی بکھرتا گیا۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جس سے کشمیر اب جھوج رہا ہے۔