تحریر:ہارون رشید شاہ
تو صاحب ایک چھوٹا سا سوال ہے… بالکل چھوٹا سا اور وہ یہ ہے کہ کیا ملک کشمیر میں کبھی ٹریفک نظام میں سدھار آجائے گا ؟سوال چھوٹا ہے‘ لیکن… لیکن اس کی تاریخ ‘ جی ہاں اس سوال کی تاریخ چھوٹی نہیں ہے اور… اور بالکل بھی نہیں ہے اور … اور اس لئے نہیں ہے کہ یہ ایک ایسا سوال ہے جو نسل در نسل پوچھا جاتارہا ہے… لیکن… لیکن اس کا جواب ‘ اس کا حل نکل نہیں پا رہا ہے اور… اور بالکل بھی نہیں پا رہا ہے ۔ حکومت کے پاس جائیے … ٹریفک کے مسئلہ کو لے کر جائیے تو وہ اس کیلئے لوگوں کو ذمہ دار ٹھہراتی ہے …یہ کہہ کرکہ یہ لوگ ہیں جو ٹریفک قوانین پر عمل نہیں کرتے ہیں ‘ یہ لوگ ہیں جنہوں نے ٹھیلے لگا کر سڑکوں پر قبضہ کررکھا ہے ‘یہ لوگ ہیں جنہوں نے تجاوزات کرکے سڑکوں کو اور زیادہ تنگ کیا ہے… یہ لوگ ہیں جو اس مسئلہ کی اصل وجہ ہے ۔اور…اور لوگوں کے پاس جائیے تو … تو وہ اس مسئلہ کیلئے براہ راست حکومت کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں… یہ کہہ کر ٹھہراتے ہیں کہ یہ حکومت ہے جو ٹریفک قوانین پر عمل نہیں کراتی ہے ‘یہ حکومت ہے جس نے سڑکوں پر سے ناجائز قبضے کو نہیں ہٹایا ہے‘ یہ حکومت ہے جس کی ناک کے نیچے تجاوزات ہو رہے ہیں۔ان الزام اور جوابی الزامات کی بھی اپنی ایک الگ تاریخ ہے ‘ لیکن… لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان الزامات اور جوابی الزامات سے ہمارا مسئلہ حل نہیںہو رہا ہے… الٹا ٹریفک کا مسئلہ بد سے بدتر ہوتا جارہا ہے… لوگ گھروں سے باہر جانے سے پہلے سو بار سوچتے ہیں کہ کہیں ٹریفک جام میں نہ پھنس جائیں اور… اور محکمہ ٹریفک کی پہلی اور شاید آخری ترجیح یہ ہے کہ کیسے وی آئی پیز حضرات کی گاڑیوں کے کاروان کی آواجاہی کو آسان سے آسان تر بنا یا جائے … بغیر کسی پریشانی کے ان کا سفر مکمل کرایا جائے ۔ٹریفک کا مسئلہ سچ میں ایک مسئلہ ہے ‘ایسا مسئلہ جو ہر گزرتے دن کے ساتھ بد ترین رخ اختیار کرتا جارہا ہے… اس کا حل نکالنا ضروری ہے… لیکن… لیکن صاحب یہ حل حکومت کے پاس ہے اور نہ لوگوں کے پاس… اس کا حل دونوں کے پاس ہے‘ مشترکہ کوششں میں ہے… حکومت اپنی ذمہ داری ادا کرے اور… اور لوگ بھی احساس ذمہ داری کا مظاہرہ کرکے ایک ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیں… اور … اور اگر ایسا ہوا تو شاید یہ اس مسئلہ کو حل کرنے کا پہلا قدم ثابت ہوگا… صرف پہلا‘آخری نہیں … بالکل بھی نہیں ۔ ہے نا؟