جموں///
نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ نے پیر کے روز کہا کہ ان کی پارٹی جموں و کشمیر میں آئندہ لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات کیلئے امیدواروں کے انتخاب کیلئے ایک الیکشن بورڈ تشکیل دے رہی ہے۔
جموں کے مضافات میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے عبداللہ نے کہا کہ ناموں کو حتمی شکل دینے سے پہلے مرکز کے زیر انتظام علاقے کے لوگوں کو اعتماد میں لیا جائے گا۔
عام انتخابات اپریل مئی میں ہونے والے ہیں لیکن سپریم کورٹ نے گزشتہ سال دسمبر میں متفقہ طور پر جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دینے والے آرٹیکل۳۷۰ کی دفعات کو منسوخ کرنے کے مرکز کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا اور ہدایت دی تھی کہ اسمبلی انتخابات۳۰ستمبر۲۰۲۴تک کرائے جائیں۔
نیشنل کانفرنس کے سربراہ نے بھلوال بلاک کے بارن گاؤں میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے ایک الیکشن بورڈ تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات امیدواروں کا فیصلہ کرنے کے لئے قریب ہیں لیکن آپ کو اعتماد میں لئے بغیر نہیں کچھ نہیں کیا جائیگا۔
ڈاکٹر فاروق نے مزید کہا کہ آپ کو فیصلہ کرنا ہے کہ کون آپ کی خدمت کرے گا اور آپ کے مسائل کو حل کرے گا اور ہمیں آپ کی حمایت کی ضرورت ہے۔
این سی صدر نے کہا کہ ان کی پارٹی نے پورے کشمیر میں انتخابی حلقوں کا انچارج بنایا ہے اور۲۰ جنوری تک جموں میں بھی ایسا ہی کیا جائے گا تاکہ لوگ رابطہ کر سکیں اور اپنے مسائل ان کے سامنے اٹھا سکیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلی نے کہا کہ وہ نیشنل کانفرنس پر پاکستان کے ساتھ ہمدردی اور دہشت گردوں کے ساتھ تعلقات رکھنے کا الزام لگا رہے ہیں لیکن پارٹی کے۱۵۰۰ وزراء‘ رہنماؤں اور کارکنوں کے دہشت گردوں کے ہاتھوں مارے جانے کے بارے میں کبھی کچھ نہیں کہا۔
نائب وزیر اعلیٰ نے کہا کہ اکتوبر۲۰۰۱ میں جب سرینگر میں جموں و کشمیر اسمبلی پر حملہ ہوا تھا تو دہشت گرد مجھے تلاش کر رہے تھے۔انہوں نے کہا’’میں حملے سے صرف پانچ منٹ پہلے گورنر سے ملنے کے لیے اسمبلی سے نکلا تھا۔ ہم ہندوستانی تھے، ہم ہندوستانی ہیں اور ہندوستانی مریں گے۔ اگر ہم پاکستان کے ساتھ جانا چاہتے تو ہم۱۹۴۷ میں ایسا کر چکے ہوتے اور ہمیں کوئی نہیں روکتا‘‘۔
نیشنل کانفرنس کے صدر نے کہا کہ سال۱۹۹۰کے بعد پُرآشوب دور میں جموں وکشمیرکا تمام ڈھانچہ تہس نہس ہوگیا تھا ، جمہوریت اور ورک کلچر نام کی کوئی چیز نہیں تھی، بیشتر پُل، سرکاری عمارتیں، سکول اور دیگر تعلیمی ادارے خاکستر ہوگئے تھے اور لوگ خوف و ہراس کے سائے تلے زندگی گزار رہے تھے ۔
سابق وزیر اعلیٰ نے کہا۱۹۹۶میں کوئی الیکشن لڑنے کیلئے تیار نہیں تھا لیکن ہم نے اُس وقت آگ میں کود کر جموں وکشمیر کے عوام کو اس پُرآشوب دور سے نکالنے کی ٹھان لی اور اس کیلئے ہمارے ہزاروں کارکنوں ، عہدیدارون اور لیڈران نے اپنی جان کی قربانیاں پیش کیں۔
ڈاکٹر فاروق نے کہاکہ نیشنل کانفرنس نے۱۹۹۶میں ایک ایسے وقت میں جموں وکشمیر کی تعمیر نو کا کام شروع کیا ، جب یہاں نہ کوئی پُل بچا تھا نہ کوئی سرکاری ڈھانچہ، نہ کوئی سڑک قابل آمد و رفت تھی اور نہ ہی کوئی ادارہ قابل کار تھا۔
این سی صدر نے کہا’’ہم نے نہ صرف آہستہ آہستہ ماحول ٹھیک کیا بلکہ ہزاروں کی تعداد میں سکول، کالج، پُل اور سرکیں تعمیر کیں اور۶سالہ دور میںڈیڑھ لاکھ سے زیادہ سرکاری ملازمتیں فراہم کیں۔ دور دراز لوگوں کیلئے رہبر تعلیم ،رہبر زراعت اور موقعے پر ہی ڈی جی بھرتی جیسی سکیمیں متعارف کرائیں اور پُرآشوب ریاست کا نظام پھر سے پٹری پر لایا ‘‘۔
ڈاکٹر فاروق نے کہاکہ آج جو لوگ یہاں امن و امان اور تعمیروترقی کے دعوے کررہے ہیں ، وہ محض زبانی جمع خرچ سے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ نیشنل کانفرنس نے جموں وکشمیر کی ترقی اور عوام کیلئے جتنا فلاحی کام کیا ہے ، اُس کا کوئی ثانی نہیںہوسکتا۔
دفعہ۳۷۰کے متعلق گمراہ کُن پروپیگنڈا پھیلانے والوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ اسی دفعہ کی بدولت یہاں کے عوام کو زمینوں پر مالکانہ حقوق ملے اور مفت تعلیم جیسے مراعات حاصل ہوئے ۔انہوں نے کہا کہ دفعہ۳۷۰مہاراجہ ہری سنگھ کی میراث تھی ، جسے غیر جمہوری، غیر آئینی اور یکطرفہ طور پر چھین لیاگیا۔ دفعہ۳۷۰کے خاتمے کا سب زیادہ خمیازہ آج جموں کے عوام کو بھگتنا پڑ رہاہے ۔