عدالت عظمی نے مرکز کے دفعہ کی منسوخی کے فیصلے کو آئینی طور پر درست قرار دیا ‘ کہا یہ ایک عارضی شق تھی جسے ہٹانا کا اختیار صدر ہند کو تھا ‘ستمبر ۲۰۲۴ تک جموں کشمیر میں اسمبلی الیکشن کرانے کی ہدایت
نئی دہلی//
سپریم کورٹ نے پیر کو مرکزی حکومت کے ذریعہ آئین کے آرٹیکل۳۷۰کو منسوخ کرکے جموں وکشمیر کے خصوصی درجے کو ختم کرنے کے فیصلے کو درست قرار دیا۔
سپریم کورٹ نے آج مرکزی حکومت کے۵؍اگست۲۰۱۹کے فیصلے کو آئینی قرار دیتے ہوئے برقرار رکھا جب کہ سرحدی ریاست کو مرکز کے زیر انتظام دو علاقوں میں تقسیم کرنے کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کو نمٹا دیا۔
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ جموں وکشمیر کے آئینی انضمام کا عمل بتدریج جاری تھا اور آرٹیکل۳۷۰ایک عارضی التزام تھا۔
چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس سنجے کشن کول، جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس بی آر گوائی اور جسٹس سوریہ کانت کی بنچ نے اپنے متفقہ فیصلے میں ریاست کے خصوصی درجہ کو ختم کرنے کے سلسلے میں صدر جمہوریہ کے جاری کردہ حکم کو درست قرار دیا۔
عدالت عظمیٰ نے آج کے فیصلے میں ریاستی مقننہ کے اختیارات کو استعمال کرنے کیلئے پارلیمنٹ کے حق کو بھی برقرار رکھا ہے ۔
اس مقدمے کی سماعت کرنے والی پانچ رکنی آئینی بنچ نے جموں و کشمیر میں قانون ساز اسمبلی کو بحال کرنے اور وہاں ۳۰ ستمبر۲۰۲۴تک اسمبلی انتخابات کرانے کی ہدایت دی ہے ۔
قابل ذکر ہے کہ اگست۲۰۱۹کے مرکز کے فیصلے میں جموں وکشمیر کی تنظیم نو کرتے ہوئے اور لداخ اور جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنادیا گیا تھا اور جموں و کشمیر میں قانون ساز اسمبلی کو مناسب وقت پر بحال کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔
چیف جسٹس کے ذریعہ لکھے گئے فیصلے میں کہا گیا کہ آرٹیکل۳۷۰خصوصی حالات کے لیے عارضی التزام تھا۔ آئین کے آرٹیکل ایک اور۳۷۰میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ جموں و کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے اور اس کی کوئی داخلی خودمختاری ہندوستان کی دیگر ریاستوں سے الگ نہیں ہے ۔
اپنے فیصلے میں، عدالت عظمیٰ نے آرٹیکل(بی)(۱)۳۵۶کے تحت ریاستی مقننہ کے اختیارات کو استعمال کرنے کے لیے پارلیمنٹ کے اختیار کو بھی برقرار رکھا ہے ۔
آئینی بنچ نے کہا کہ صدر جمہوریہ کی طرف سے آرٹیکل۳۷۰(۱)(ڈی)کے تحت اختیار کا استعمال کرتے ہوئے آئین ہند کی تمام دفعات کو ریاست جموں و کشمیر پر لاگو کرنے کے لیے جاری کیا گیا حکم درست ہے ۔ عدالت عظمیٰ نے یہ بھی کہا ہے کہ صدر جمہوریہ کے پاس آئین ساز اسمبلی کی سفارش کے بغیر بھی آرٹیکل۳۷۰(۳)کی دفعات پر پابندی لگانے کا اختیار ہے ۔
عدالت عظمیٰ نے کہا’’جموں کشمیر کے سلسلے میں صدر جمہوریہ کے ذریعے آرٹیکل۳۷۰(۱)کے تحت طاقت کا مسلسل استعمال اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہاں آئینی انضمام کا عمل بتدریج جاری تھا۔ آرٹیکل۳۷۰(۳)کے تحت صدر کی طرف سے جاری کردہ اعلامیہ انضمام کے عمل کا اختتام ہے اور اس طرح طاقت کا استعمال باجواز ہے ۔
سپریم کورٹ نے کہا’’اس طرح، آئینی آرڈر۲۷۳(آرٹیکل۳۷۰کو منسوخ کرنے کا حکم) درست ہے ‘‘۔
آئینی بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ہندوستان کے ساتھ جموں وکشمیر کے الحاق نامہ پر عمل درآمد اور۲۵نومبر۱۹۴۹کے اعلامیہ (جس کے ذریعہ ہندوستان کے آئین کو اختیار کیا گیا تھا) کے اجراء کے بعد کشمیر کی خودمختاری کی کوئی بنیاد باقی نہیں بچتی ہے ۔
سپریم کورٹ نے کہا کہ ہندوستان کا آئین قانونی حکمرانی کے لیے مکمل ضابطہ ہے ۔ بنچ نے کہا’’آئینی آرڈر نمبر۲۷۳کے ذریعہ ریاست جموں و کشمیر پر ہندوستان کے آئین کے مکمل اطلاق کے بعد، ریاست جموں و کشمیر کا آئین غیر فعال ہو گیا ہے اور اسے کالعدم قرار دے دیا گیا ہے ‘‘۔
جسٹس گوائی اور جسٹس کانت کے ساتھ چیف جسٹس چندرچوڑ کے ذریعے لکھے گئے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کی’ایسی کوئی داخلی خودمختاری‘نہیں ہے جو ملک کی دیگر ریاستوں کو حاصل اختیارات اور مراعات سے ممتاز ہو۔
بنچ نے ریاست کی تنظیم نو سے متعلق سالیسٹر جنرل تشار مہتا کے اس بیان پر عمل درآمد کرنے کی ہدایت دی جس میں انہوں نے عدالت میں کہا تھا کہ مرکز کے زیر انتظام علاقہ لداخ کو چھوڑ کر جموں و کشمیر کی ریاست کا درجہ بحال کیا جائے گا۔
آئینی بنچ نے کہا ہے کہ سالیسٹر جنرل مہتا کے بیان کو دیکھتے ہوئے ہمیں یہ طے کرنا ضروری نہیں لگتا کہ جموں و کشمیر کی تنظیم نو آئین کے آرٹیکل۳کے تحت جائز ہے یا نہیں۔ ہم تنظیم نو کی قانونی حیثیت کو برقرار رکھتے ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے الیکشن کمیشن کو ۳۰ستمبر۲۰۲۴تک تنظیم نو کے قانون کی دفعہ۱۴کے تحت جموں و کشمیر اسمبلی کے انتخابات کرانے کیلئے اقدامات کرنے کی ہدایت دی ہے ۔
اس معاملے میں سپریم کورٹ نے تین فیصلے سنائے ہیں۔ ان میں سے ایک فیصلہ چیف جسٹس چندر چوڑ، جسٹس گوائی اور جسٹس سوریہ کانت نے لکھا تھا۔ دوسرا فیصلہ جسٹس کول اور تیسرا جسٹس کھنہ نے دیا۔جسٹس کھنہ نے اپنے فیصلے میں چیف جسٹس چندر چوڑ اور جسٹس کول کے فیصلے سے اتفاق کیا۔
آئینی بنچ نے اپنا فیصلہ سنا دیا جس کا بہت انتظار تھا۔ عدالت عظمیٰ نے ۲اگست۲۰۲۳کو درخواست گزاروں کے دلائل کی سماعت شروع کی تھی۔۱۶دن تک فریقین کے دلائل سننے کے بعد۵ستمبر ۲۰۲۳کو فیصلہ محفوظ رکھ لیا گیا تھا۔
عدالت عظمیٰ کے سامنے ، سینئر وکلاء… کپل سبل، راجیو دھون، گوپال سبرامنیم، دشینت دوے ، ظفر شاہ، گوپال سنکرارائنن – نے درخواست گزاروں کی طرف سے دلائل پیش کیے تھے ۔
سجاد لون کی قیادت میں جموں و کشمیر پیپلز کانفرنس کی نمائندگی مسٹر دھون نے کی۔
سبل نے نیشنل کانفرنس کے رکن پارلیمنٹ محمد اکبر لون کی طرف سے دلائل دیئے تھے ۔ مرکزی حکومت کی طرف سے اٹارنی جنرل آر وینکٹرامنی اور سالیسٹر جنرل تشار مہتا پیش ہوئے تھے ۔ ان کے علاوہ کئی دیگر افراد نے بھی مداخلت کی اور سماعت کے دوران وکلاء کے ذریعے عدالت کے سامنے دلائل پیش کئے ۔