سرینگر// لیفٹیننٹ گورنر جموں و کشمیر منوج سنہا نے جمعرات کو دہرایا کہ امن کے بغیر کوئی ترقی نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے عام شہریوں پر زور دیا کہ وہ آگے آئیں اور خطے میں امن کو یقینی بنانے اور اسے برقرار رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
’’امن کے بغیر ترقی نہیں ہو سکتی۔ اگر ہمیں ترقی اور اصلاح کی ضرورت ہے تو امن کو یقینی بنانا ناگزیر ہے۔ یہ صرف پولیس اور سیکورٹی فورسز کا فرض نہیں ہے کہ وہ امن کے لیے کام کریں بلکہ شہریوں کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے آگے آنا چاہیے اور خطے میں امن کو یقینی بنانے اور اسے برقرار رکھنے کیلئے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے‘‘۔
جمعرات کی شام کوسرینگر سمارٹ سٹی لمیٹڈ کے زیر اہتمام ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سنہا نے جموں و کشمیر کے شہریوں پر زور دیا کہ وہ خطے میں امن کو یقینی بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ان کاکہنا تھا’’ اگر ہم سب کچھ فورسز اور انتظامیہ پر چھوڑ کر اپنی ذمہ داریوں سے بھاگتے ہیں تو امن ایک دور کا خواب ہے جو ہو نہیں سکتا‘‘۔
خطے میں امن کو خراب کرنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف سخت بات کرتے ہوئے، ایل جی سنہا نے کہا کہ تنازعات کے منافع خوروں کا وقت ختم ہو چکا ہے، لیکن پھر بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو جموں کشمیر میں امن کو خراب کرنا چاہتے ہیں۔
سنہا نے کہا’’میں کہنا چاہتا ہوں کہ تنازعات کے منافع خوروں کا وقت ختم ہو گیا ہے۔ پھر بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو امن کو خراب کرنا چاہتے ہیں چاہے جموں و کشمیر میں کچھ بھی ہو یا نہ ہو۔ وہ جموں و کشمیر کے لوگوں کو تشدد کی طرف اکسانے کے لیے بیرونی دنیا سے متعلق مسائل کا استعمال کرتے ہیں‘‘۔
ایل جی نے مزید کہا کہ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ جس طرح سیاحت میں بہتری آرہی ہے اس سے انفراسٹرکچر اور شہری تبدیلی میں اضافہ ہوتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا ’’ہمیں ترقیاتی عمل اور اصلاحی مشقوں پر فخر کرنا چاہیے‘‘۔
لیفٹیننٹ گورنر نے مزید کہا کہ جس دن امن خراب ہو گا وہاں سیاحت، ترقی، روزگار اور انفراسٹرکچر نہیں ہو گا۔ ایسے عناصر ہیں جو بغیر کسی ثبوت کے بات کر رہے ہیں اور لوگوں کو اکسا رہے ہیں۔
ایل جی نے جموں کشمیر کے عام شہریوں سے اپیل کی کہ اگر وہ حکومت کے فیصلوں میں کوئی غلط محسوس کرتے ہیں تو آگے آئیں۔سنہا نے کہا’’میں اس بات کا اعادہ کرتا ہوں کہ اگر جموں و کشمیر کے کسی شہری کو ہمارا فیصلہ غلط لگتا ہے، تو ہم کھلے دل سے اس کا خیرمقدم کرتے ہیں اور ان کے ساتھ بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ لیکن افواہیں پھیلانا اور عام لوگوں کو دھوکہ دینا اچھا نہیں ہے۔‘‘