اگر چہ جموں وکشمیر میں اسمبلی الیکشن ابھی دلی دور است والا معاملہ ہی نظرآرہا ہے لیکن سیاسی جماعتوں نے الیکشن کو ہی مد نظر رکھ کر اپنی چنائو مہموں کا آغاز کردیا ہے۔عوام کو یقین دلایا جارہا ہے کہ ۵؍اگست کے تناظرمیں جو کچھ بھی سیاسی، اقتصادی اور انتظامی سطحوں پر چھینا گیا ہے ان سب کی بحالی کی سمت میں اقدامات اُٹھائے جائیںگے۔
اپنی پارٹی، کانگریس اور چند دوسری پارٹیوں سے وابستہ لیڈر شپ کی طرف سے حالیہ چند دنوں کے دوران منسوخ شدہ تاریخی دربارمو کو بحال کرنے کے اعلانات سامنے آرہے ہیں ، کوئی بجلی کی مفت سپلائی کی نوید سنارہاہے تو کوئی اراضیوں اور سرکاری ملازمتوں کو مقامی بلکہ جموں وکشمیر کے اصلی باشندوں کیلئے سو فیصد محفوظ رکھنے کا مژدہ سنارہاہے۔ آزاد صاحب اپنی پارٹی کے ممکنہ اُمیدواروں کی کامیابی کو یقینی بنانے کی سمت میں عدالت کی طرف سے غیر آئینی او رغیر قانونی قراردی گئی روشنی کی سکیم کو بحال کرکے سابق اور نئے مستحقین کے حق میں الاٹ کرنے کی بات کررہاہے جبکہ نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کی جانب سے کچھ سیاسی نعرے دیئے جارہے ہیں۔
حکمران جماعت بی جے پی کے ایک سینئر لیڈر نے ابھی چندروز قبل الیکشن کے حوالہ سے بیان دیا کہ بہت جلد الیکشن ہوں گے جبکہ نیشنل کانفرنس ، پی ڈی پی اور کانگریس خاص طور سے اس بات پر اصرار کررہاہے کہ بی جے پی نہیں چاہتی کہ جموں وکشمیرمیںالیکشن ہوں کیونکہ بقول ان پارٹیوں کے حکمران جماعت کو الیکشن کے انعقاد سے قبل ہی اپنی شکست کے آثار بھی دکھائی دے رہے ہیں اور شکست کا احساس بھی ہورہا ہے۔ اس تعلق سے کرگل ترقیاتی کونسل کے حالیہ انتخابی نتائج کا بھی بطور دلیل حوالہ دیاجارہا ہے جس میں کانگریس اور نیشنل کانفرنس نے ۲۶؍ حلقوں میں سے ۲۲؍ حلقوں میںکامیابی حاصل کرلی۔ جبکہ بی جے پی، جو مسلسل دعویٰ کررہی تھی کہ وہ بھاری اکثریت حاصل کرنے میںکامیاب ہوگی صرف ۲؍ حلقوں میں اپنی جیت درج کراسکی ہے۔
ہر سیاسی پارٹی آنے والے الیکشن میں عوام کا بھاری منڈیٹ حاصل کرنے کا دعویٰ کرکے اپنے بل پر اگلی حکومت کی تشکیل کا ڈھول بجارہی ہے لیکن ان پارٹیوں سے یہ سوال کیاجاسکتا ہے کہ وہ کم سے کم یہ تو بتائیں کہ وہ کس عوامی خدمت کے صلے میں اس نوعیت کا دعویٰ کررہی ہیں۔ انہوںنے کشمیراور بحیثیت مجموعی اہل کشمیرکیلئے اب تک کیا کیا؟ ان میں سے کچھ سیاستدان گذشتہ ۷۵؍ برسوں کے دوران صاحب اقتدار بھی رہے ، مرکز اقتدار کے قریب بھی رہے ، گٹھ جوڑ والی سرکاروں کاحصہ بھی رہے ہیں اور بحیثیت اپوزیشن کے بھی کردار ادا کرچکے ہیں ۔ لیکن وہ کیوں یہ توقع رکھ رہے ہیں کہ لوگ ان کی جھولی میںاپنا منڈیٹ ڈال دیں گے۔
حق رائے دہی ہر ایک ووٹر کا پیدائشی حق ہے، کسی بھی ووٹر کو کسی مخصوص اُمیدوار یا پارٹی کے حق میں ووٹ ڈالنے کیلئے دبائو نہیں ڈالا جاسکتا ہے لیکن ہر ایک رائے دہندہ اپنی جگہ ایک تو اپنی پسند کا خیال رکھتا ہے دوسرا اپنا ووٹ کے استعمال کے عوض کس حد تک اس کی روزمرہ کی توقعات پوری ہوسکتی ہیں۔ پسند اور ناپسند کے تعلق سے ہر ووٹر مقامیت کو ملحوظ نظر رکھ کر اُس کو اپنی پہلی ترجیح تو دے رہا ہے لیکن سیاسی نظریات اور سیاسی خواہشات کے حوالہ سے معاملات اس کی ترجیحات کی سمت تبدیل کرنے میں اہم کردارکاحامل بن جاتا ہے۔
اب کی بار ہر ووٹر کے ذہن میں پہلا سوال یہی ہے کہ ریاستی درجہ کی بحالی کے بغیر اسمبلی کیلئے انتخابات کا انعقاد اور حکومت کی تشکیل بے سود اور بے معنی ہوگی۔ کیونکہ اس صورت میں کسی بھی منتخبہ رکن اسمبلی اور پھر حکومت کے پاس فیصلہ سازی کاکوئی کردار نہیں، معرض وجود میں آنے والی اسمبلی اور حکومت کی حیثیت محض لنگڑی ہوگی جبکہ قدم قدم پر ایسی کسی حکومت کو مرکز سے پیشگی منظوری کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ کیونکہ کسی بھی ملک کی یوٹی کے پاس اپنے طور سے اختیارات حاصل نہیں۔ اس پس منظر میںجموں وکشمیر مستثنیٰ کیسے رہ سکتا ہے؟
جو پارٹیاں الیکشن الیکشن کی نعرہ بازی میں مصروف ہیں اور ہر ۲۴؍گھنٹے بعد الیکشن کے حوالہ سے کوئی نہ کوئی کہانی سامنے پیش کی جارہی ہے اور عوام سے وعدے کئے جارہے ہیں لیکن ریاستی درجہ کی بحالی کی بات نہیں کی جارہی ہے۔ اس تعلق سے ان کی خاموشی ایک معمہ بن چکی ہے جو سمجھ سے بالاتر ہے۔
۵؍اگست کے تناظرمیں جموںوکشمیر میں بہت سارے شعبوں میں بدلائو آیا بھی اور لایا بھی گیا۔ سیاسی منظرنامہ کے تعلق سے بھی بہت سارے جتن کئے گئے، ان میں پنچایتی ، بلدیاتی ، ضلعی کو نسلوں وغیرہ کے انتخابات بھی شامل ہیں۔ ایک مقصد یہ بھی رہا کہ نئی قیادت کو اُبھرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔کچھ لوگوں نے نئی سیاسی پارٹیاں تشکیل دی، کچھ سیاسی اُفق پر بغیر کسی پارٹی کی تشکیل کے جلوہ گر رہے ، لیکن ان میں سے ابھی تک ایک بھی چہرہ بحیثیت سیاستدان اُبھر کر سامنے نہیں آسکا۔ جن لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی ان کی ترجیحات اپنے لئے سکیورٹی حصار، حصار بند رہائشی انتظامات، پروٹوکول کا حصول کے علاوہ انتظامیہ کے پاس سفارشات کا انبار پیش کرکے اپنے منظور نظروں کیلئے مراعات اور من پسند پوسٹنگ مطمع نظررہا جبکہ کچھ ایک اپنی سیاہ کاریوں کے طفیل سلاخوں کے پیچھے بھی چلے گئے۔
اس سارے تناظرمیں کشمیر کا سیاسی منظرنامہ تذبذب، انتشار، تقسیم درتقسیم ،مختلف نظریات اور انفرادی مفادات کے حوالہ سے عبارت ہے۔ کوئی ایک بھی پارٹی یا ان سے وابستہ لیڈر شپ صاف چھپتی بھی نہیں سامنے آتی بھی نہیں کی مصداق اپنی سرگرمیوں میں مصروف ہیں جبکہ یہ سارے عوام کو بے وقوفوں کا جمہ گٹھا تصور کررہے ہیں یا ماضی قریب کی مانند اپنے لئے ایک تسخیر شدہ شئے!
قیادت کے دعویداروں کا یہ جم گٹھا کسی نظریاتی یا کسی اصولی سیاست کی راہ پر گامزن نہیں بلکہ ایک دوسرے کی نعرہ بازی، عوام کے ساتھ کئے جارہے وعدوں کے توڑ یا ان ہی جیسے وعدوں کو اپنا نریٹو بناکر پیش کرنے اور ناقابل عمل وعدوں کے بلند بناگ دعوئوں کو لے کر یہ تاثر دینے کی کوشش کررہی ہے کہ ہم بھی کسی سے کم نہیں بلکہ ہم بھی شہسواروں میںشامل ہیں۔جو کہ نہیں بلکہ ان کی یہ حیثیت گذشتہ کچھ برسوں کے دوران واضح طور سے ثابت بھی ہوچکی ہے۔