سرینگر//
کالعدم جماعت اسلامی کے ایک سرکردہ رہنما نے اپنے حامیوں کے ساتھ جمعرات کو یہاں اس کے ہیڈکوارٹر میں اپنی پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔اس بات کی امید کرتے ہوئے کہ جماعت اسلامی سے مزید لوگ اپنی پارٹی میں شامل ہوں گے انہوں نے کہا کہ اپنی پارٹی میں شمولیت ایک حقیقت پسنددانہ رویہ ہے ۔
جماعت اسلامی کے رہنما، طلعت ماجد، جن کا تعلق جنوبی کشمیر کے ضلع پلوامہ سے ہے اور وہ پابندی سے قبل رکن جماعت (جماعت کے رکن) تھے، نے واضح کیا کہ مرکزی دھارے کی سیاسی جماعت کا حصہ بننے کے لیے ان پر کسی قسم کا دباؤ نہیں ہے۔
ماجد نے جموںکشمیر کی سب سے کم عمر سیاسی پارٹیوں میں سے ایک میں شامل ہونے کے بعد صحافیوں کو بتایا’’میں قومی دھارے میں شامل ہونے کے لیے کسی دباؤ میں نہیں ہوں… میں۲۰۱۴سے اس تبدیلی کی وکالت کر رہا ہوں۔ میں یہ تبدیلی جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم سے لانا چاہتا تھا۔ چونکہ مجھے وہاں موقع نہیں ملا، میں نے دوسرے آپشنز تلاش کرنے کا فیصلہ کیا‘‘۔
ماجد اور ان کے حامیوں کو پارٹی میں خوش آمدید کہتے ہوئے، اپنی پارٹی کے بانی الطاف بخاری نے کہا کہ جو بھی دہشت گردی اور منشیات کی مذمت کرتا ہے، ہندوستانی آئین اور جموں و کشمیر کی ترقی پر یقین رکھتا ہے، اس کا پارٹی میں شمولیت کا خیرمقدم ہے۔
بخاری نے کہا کہ ہم اس وقت تک اپنی کوششیں جاری رکھیں گے جب تک جموں و کشمیر کا ہر فرد اپنی پارٹی میں شامل نہیں ہو جاتا۔
اس سال ستمبر میں، سابق علیحدگی پسند سید مظفر رضوی، جو اتحاد المسلمین کے جنرل سکریٹری تھے ‘نے اپنی پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی۔
بخاری‘جو ایک تاجر سے سیاست دان بنے ہیں، نے رضوی کی کشمیر کے علاقے کے لیے اپنی پارٹی کے نائب صدر کے طور پر تقرری کا اعلان کیا تھا۔
جماعت اسلامی جموں و کشمیر ۲۰۰۳ تک علیحدگی پسند جماعت حریت کانفرنس کا ایک اہم حصہ تھی۔ یہ تنظیم، جو خود کو ایک سماجی‘مذہبی گروپ ہونے کا دعویٰ کرتی تھی، کو کالعدم دہشت گرد تنظیم حزب المجاہدین کا نظریاتی رہنما سمجھا جاتا تھا۔ پارٹی پر ۲۰۱۹ میں غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت پابندی عائد کردی گئی تھی۔
ماجد نے کہا کہ دہشت گردی سے کشمیریوں کو کبھی فائدہ نہیں ہوا۔
ان کاکہنا تھا’’میں۲۰۱۴سے کہہ رہا ہوں کہ ہمیں حقیقت پسندانہ انداز اپنانا چاہیے۔ میں نے ہمیشہ جغرافیائی سیاسی صورتحال کے بارے میں بات کی ہے جس کے نتیجے میں۵ء۱لاکھ نوجوانوں کی موت ہوئی اور۱ء۱ لاکھ نوجوان منشیات کے عادی ہوئے۔ ہمیں نوجوانوں کے مستقبل کے بارے میں سوچنا ہوگا‘‘۔
ماجد کا مزید کہنا تھا’’یہ میرا ایجنڈا ہوگا… میں نوجوانوں کو بچانے کی کوشش کروں گا۔ میری خواہش ہے کہ مسلح جدوجہد کے نام پر کوئی نہ مرے۔ یہ عام کشمیری ہے جو مرتا ہے، اس سے قطع نظر کہ گولی کس طرف سے چلائی جائے۔‘‘ماجد نے کہا کہ عام لوگوں کا کسی نے نہیں سوچا۔