تحریر:ہارون رشید شاہ
چلئے صاحب ماہ صیام کو ہم نے بخوشی رخصت کیا… خوش ہو ئے کہ کسی طرح ہمارے سر وںسے یہ بلا ٹل گئی اور … اور پورے گیارہ ماہ تک ٹل گئی … جب اگلی بار یہ خود کو ہم پر مسلط کرے گا … تب کی تب دیکھیں گے … کہ آج کی بات اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اسے رخصت کیا اور یہ بلا ٹل گئی… کسی طرح ٹل گئی ۔خیر!ایک بات تو ہمیں ماننی پڑے گی ‘ تسلیم کرنی پڑے گی کہ … کہ روزوں کے دوران ‘ روزہ خوروں کو جتنی محنت کرنی پڑی ‘ روزہ داروں کو اس کے عشر عشیر سے بھی نہیں گزرنا پڑتا ہے ۔چوری چھپے کھانا اور پینا … کھانا پینا تو بعد کی بات ہے ‘ پہلے تو انہیں کھانا تلاش کرنا پڑتا ہے کہ گھر کے کسی روزہ دار نے ان کے لئے کھانا پکایابھی ہے یا نہیں ۔سگریٹ پینے والوں کی تو اور بھی حالت خراب ہوتی ہے…خراب کیا قابل رحم ہوتی ہے‘ ایسی جگہ تلاش کرنی پڑتی ہے جہاں سے کسی کو سگریٹ نوشی کی خوشبو نہیں آئے ۔جو ظلم ‘ جو زیادتی اور ناانصافی ماہ صیام میں روزہ خوروں کے ساتھ ہوتی ہے اللہ میاں کی قسم وہ سیدھے انسانی حقوق کی پامالی کے زمرے میں آجاتی ہے ‘ لیکن المیہ یہ ہے کہ ان پامالیوں پر وہ احتجاج بھی نہیں کر ستے ہیں ‘ مظاہرہ اور نہ کوئی دھرنا دے سکتے ہیں ۔کوئی جماعت ان بے چاروں کی حمایت میںایک عدد حمایتی بیا ن تک نہیں داغ دیتی ہے ۔سچ میں بڑی سخت آزمائش کا ان کیلئے ماہ صیام ہوتا ہے‘پر اب انہیں خوش ہو نا چاہیے‘ عید منانی چاہیے کہ اب یہ آزمائش بس کچھ اورلمحوں کیلئے ہے اس کے بعد سال کے گیارہ مہینے ان کے اور یہ گیارہ مہینوں کے۔ جاتے جاتے ہم تو آپ سب کو عید مبارک کرکے ہی جائیں گے لیکن روزہ داروں کیلئے ہمارا پیغام یہ ہے کہ جس طرح ۱۲ مہینوں میں ماہ صیام اقلیت میں ہے اسی طرح روزہ دار بھی اقلیت میں ہیں۔ اس ماہ میں انہوں نے جس طرح ہمارے ا نسانی حقوق پامال کئے ‘ اس بات کا بالکل بھی لحاظ نہیں رکھا کہ یہ ہمدردی کا مہینہ ہے‘اس سب کا ہم ان سے گن گن کر حساب لیں گے کہ ہم اکثریت میں ہیں اور روزہ دار اقلیت میں … ہے نا ؟