سرینگر/۲۲ستمبر
سابق وزرائے اعلیٰ عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی اور دیگر سیاسی لیڈروں نے میر واعظ عمر فاروق کی طویل خانہ نظر بندی سے رہائی کا خیر مقدم کیا ہے ۔
بتادیں کہ انتظامیہ نے میر واعظ مولوی عمر فاروق کو چار سال کے بعد سری نگر کے نوہٹہ میں واقع تاریخی جامع مسجد میں خطبہ جمعہ دینے کی اجازت دی ہے ۔
نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے’ایکس‘پر ایک پوسٹ میں کہا”میں جموں وکشمیر انتظامیہ کی طرف سے میر واعظ عمر فاروق کی خانہ نظر بندی سے رہائی کے اقدام کا خیر مقدم کرتا ہوں“۔
عمر نے پوسٹ میں کہا”امید ہے کہ اب ان کو آزادنہ طور چلنے پھرنے ، لوگوں کے ساتھ بات چیت کرنے اور انہیں اپنی سماجی و مذہبی ذمہ داریوں کو دوبارہ انجام دینے کی اجازت دی جائے گی“۔
سابق وزیر اعلیٰ کا مزید کہنا تھا”آج کشمیر میں تمام لوگوں کی نظریں میر واعظ پر ہوں گی جب وہ جامع مسجد میں جمعہ خطبہ دے رہے ہوں گے“۔
پی ڈی پی صدر اور سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے’ایکس‘پر اپنے پوسٹ میں کہا”بالآخر میر واعظ عمر فاروق اپنی نظر بندی، جس کی ایل جی انتظامیہ برسوں سے تر دید کر رہی تھی، کے بعد رہا ہوں گے“۔
محبوبہ نے کہا کہ بحیثیت مذہبی سربراہ جموں وکشمیر کے تمام مسلمان انہیں عزت کرتے ہیں۔ان کا پوسٹ میں مزید کہنا تھا”بدقسمتی یہ ہے کہ بی جے پی کی مختلف جماعتوں کے درمیان ان کی رہائی کا سہرا اپنے سر باندھنے کے لئے لڑائی شروع ہوچکی ہے“۔
دریں اثنا جموں و کشمیر اپنی پارٹی کے صدر سید محمد الطاف بخاری نے اس بارے میں میڈیا کو بتایا ” میر واعظ عمر فاروق کی رہائی کے لئے ملک کے وزیر داخلہ امیت شاہ اور جموں وکشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا کا شکریہ ادا کرتا ہوں“۔انہوں نے کہا کہ میر واعظ کی رہائی کا کریڈٹ ان کے تمام شیدائیوں کو جاتا ہے جنہوں نے اس سلسلے میں دعائیں اور کاوشیں کیں۔
سی پی آئی (ایم) کے رہنما محمد یوسف تاریگامی نے میر واعظ عمر فاروق کی رہائی کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا”میر واعظ کی غیر قانونی نظر بندی سے رہائی ایک خوش آئند قدم ہے “۔
انہوں نے کہا”میر واعظ ایک ذی عزت اور با اثر مذہبی رہنما ہیں، اختلاف رائے جمہوریت کا اہم جز ہے اس کو لوگوں کے بنیادی حقوق کو سلب کرنے کے لئے بہانہ نہیں بنایا جانا چاہئے “۔
جموں وکشمیر پیپلز کانفرنس کے سربراہ سجاد غنی لون نے کہا”میں میر واعظ عمر فاروق صاحب کی رہائی کا خیر مقدم کرتا ہوں“۔انہوں نے’ایکس‘پر اپنے پوسٹ میں کہا”آج کا دن ہم سب کے لئے خوشی کا دن ہے کہ ہم ان کو نماز کی امامت کرتے ہوئے دیکھیں گے “۔ان کا مزید کہنا تھا”وہ ایک مذہبی روایت کی علامت ہیں جو بنیادی طور پر مذیبی نوعیت کی ہے اس روایت کو گذشتہ تین دہائیوں کے دوران تمام حکومتوں نے روکا امید ہے کہ اب یہ روایت بغیر رکاوٹ کے فروغ پائے گی۔“