سرینگر///
وادی کشمیر میں امسال نا ساز گار موسمی صورتحال کے باعث سیب کی فصل کی طرح بادام کی پیدا وار بھی متاثر رہی۔تاہم بازار میں بادام کے ریٹ تسلی بخش رہنے کے پیش نظر کسان مطمئن نظر آ رہے ہیں۔
وسطی ضلع بڈگام کے چاڑورہ ناگام علاقے میں ان دنوں کسان اپنے بادام باغوں میں درختوں سے بادام اتارنے کے کام میں مصروف ہیں۔
اشفاق احمد یتو نامی ایک باغ مالک جس کا باغ چرار شریف روڈ پر ہے ، نے یو این آئی کے ساتھ اپنی گفتگو میں کہا کہ امسال ناساز گار موسمی حالات کی وجہ سے درختوں سے بادام اتارنے میں کم سے کم ایک ماہ کی تاخیر ہوئی۔انہوں نے کہا’’موسم خراب رہا کبھی زیادہ بارش ہوئی تو پھر موسم کافی زیادہ گرم رہا جس کے باعث امسال پیدا وار میں۲۵سے۳۰فیصد کمی وقع ہوئی‘‘۔
اشفاق کا کہنا تھا کہ سال گذشتہ کے مقابلے میں امسال پیدا وار کم ضرور ہے لیکن ریٹ تسلی بخش ہے ۔
باغ مالک نے کہا کہ وادی میں سال۲۰۱۴سے۲۰۱۹تک ناساز گار موسمی حالات و دیگر مسائل کی وجہ سے بادام کی فصل کافی متاثر رہی۔انہوں نے کہا’’اس وقفے کے دوران کسان اپنے باغوں کا خاطر خواہ خیال نہیں رکھ سکے جس کے باعث پیدا وار میں کمی واقع ہوئی‘‘۔ان کا کہنا تھا’’امسال پیدا وار کم ہے لیکن مارکیٹ میں ریٹ تسلی بخش ہے ‘‘۔ناساز گار موسمی صورتحال سے اس سال فصل اتارنے کے کام میں بھی تاخیر ہوئی۔
جاوید احمد نے کہا کہ بیرونی ممالک کے یہاں کے بازاروں میں بادام کی دستیابی سے کشمیری بادام کی مانگ اور ریٹ پرکوئی اثر نہیں پڑا ہے ۔ بازار میں کشمیری بادام کی مانگ برابر قائم ہے اور اس بادام کو بہت پسند کرتے ہیں اور شوق سے اس کی خریداری کی جاتی ہے ۔
احمد کا کہنا تھا’’ہم بادام کو صاف کرکے سوکھاتے ہیں اور پھر بیوپاری کو بیچتے ہیں‘‘۔انہوں نے کہا کہ امسال کاغذی بادام کی ریٹ۲۵۵رویے فی کلو ہے جبکہ دوسرے قسم کے بادام کی ریٹ ۱۵۰روپے فی کلو ہے ۔
انہوں نے کہا’’تاہم وادی میں بادام کے باغ ختم ہو رہے ہیں کیونکہ لوگ نئے بادام باغ نہیں لگا رہے ہیں یہاں سیب باغ لگانے کو ترجیح دی جا رہی ہے ‘‘۔ان کا کہنا تھا’’یہاں جو پرانے وقت میں باغ لگائے گئے ہیں ان کو بھی کاٹا جا رہا ہے نئے بادام باغ کوئی لگانے کیلئے تیار نہیں ہے ‘‘۔
احمد نے کہا کہ محکمہ باغبانی بھی یہاں بادام باغوں کی طرف کوئی توجہ نہیں کر رہی ہے ۔انہوں نے کہا’’متعلقہ محکمہ اس صنعت سے وابستہ سے کسانوں کو کوئی نئی ٹیکنالوجی یا دوسری ضروری چیزیں یا مشورے نہیں دے رہا ہے ‘‘۔ان کا کہنا تھا’’ہم اپنے تجربے کی بنیاد پر باغوں کی دوا پاشی کرتے ہیں اور باغوں کی باقی دیکھ ریکھ بھی اپنے تجربے کے لحاظ سے ہی کر رہے ہیں‘‘۔
انہوںنے کہا کہ جس طرح سیب کے باغ لگانے کیلئے محکمہ کسانوں کی بھر پور رہنمائی کر رہا ہے اسی طرح بادام کے باغ لگانے کیلئے بھی کسانوں کو مشورے فراہم کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایسا کرنے سے کشمیری بادام نایاب ہونے سے بچ سکتے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ ایک زمانے میں کشمیر کے بعض علاقوں میں سیب سے زیادہ بادام کے باغات نظر آ رہے تھے لیکن بعد میں سیب کے باغ لگانے کا رجحان بڑھنے کے ساتھ ہی یہ باغات معدوم ہونے لگے اور اب کہیں کہیں ہی یہ باغ نظر آ رہے ہیں۔
اس صنعت سے وابستہ لوگوں کا ماننا ہے کہ سیب کے مقابلے میں بادام کی کم ریٹ یہ باغ کم ہونے کی بنیادی وجہ ہے ۔انہوں نے کہا کہ اگر چہ سیب باغ تیار کرنے میں کافی محنت درکار ہے تاہم اس کا منافع بھی تسلی بخش ہوتا ہے ۔