سرینگر//(ویب ڈیسک)
سپریم کورٹ نے آرٹیکل ۳۷۰ کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر طویل سماعت کے بعد آج اپنا فیصلہ محفوظ کرلیا، جس کے تحت سابقہ ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ حاصل تھا۔
چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں جسٹس ایس کے کول، سنجیو کھنہ، بی آر گوائی اور سوریہ کانت پر مشتمل پانچ رکنی بنچ نے ۱۶دنوں تک اس معاملے میں عرضیوں کی سماعت کی۔
اس معاملہ میں سینئر وکیلوں نے سماعت میں حصہ لیا اور اپنے اپنے دلائل پیش کئے جن میں قابل ذکر کپل سبل، راجیو دھون، گوپال سبرامنیم، دشینت ڈیو، ظفر شاہ، گوپال سنکرارائنن شامل ہیں۔
وہیں مرکزی حکومت کی نمائندگی اٹارنی جنرل آر وینکٹ رامانی اور سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے کی۔ متعدد مداخلت کاروں کی نمائندگی کرنے والے وکلاء نے بھی اس معاملے میں عدالت کے سامنے اپنے دلائل پیش کیے۔
عدالت عظمیٰ نے کہا کہ اگر کوئی وکیل درخواست گزاروں یا جواب دہندگان کی طرف سے پیش ہونا چاہتا ہے تو وہ اگلے تین دنوں میں تحریری عرضی داخل کر سکتا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے کہا کہ عرضی دو صفحات سے زیادہ پر تحریر نہیں ہونی چاہیے۔
سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے مرکزی حکومت کی طرف سے پیش ہوتے ہوئے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ حکومت ہمیشہ قومی یکجہتی کے حق میں رہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وہ الیکشن اور سیاست میں نہیں پڑنا چاہتیں۔
مہتا نے کہا’’اس(آرٹیکل ۳۷۰کی منسوخی) کے ساتھ لوگوں کی فلاح و بہبود کا خیال رکھا جا رہا ہے ‘‘۔انہوں نے آرٹیکل ۳۷۰کو منسوخ کرنے کے مرکز کے ۵؍اگست۲۰۱۹کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ دہائیوں میں پہلی بار۲۰۲۰میں بلدیاتی انتخابات کرائے گئے ۔ نہ ہڑتال، نہ پتھراؤ، نہ ہی کوئی کرفیو۔نئے ہوٹل بنائے جا رہے ہیں۔ اس فیصلے سے سب کو فائدہ ہوا ہے ‘‘۔
دوسری طرف، عدالت عظمیٰ میں فیصلے کو چیلنج کرنے والے درخواست گزاروں نے آرٹیکل ۳۷۰کی منسوخی کی مخالفت کی اور دلیل دی کہ یہ جموں و کشمیر کے لوگوں کی بھلائی کے لیے نہیں ہے اور درخواستوں کو رد کیا جانا چاہیے ۔
نیشنل کانفرنس کے رہنما و رکن پارلیمنٹ حسنین مسعودی نے آرٹیکل ۳۷۰کی منسوخی کے خلاف دائر کی گئی عرضیوں پر سپریم کورٹ میں ہوئی سماعت پر اطمینان کا اظہار کیا۔
مسعودی نے کہا کہ ہماری جانب سے جو دلائل پیش کئے گئے اور جس طرح سے سماعت ہوئی اس سے ہم مطمئن ہیں۔’’ ہم نے سپریم کورٹ میں اپنا موقف بہتر انداز میں رکھا اور ہر پہلو پر اچھے طریقے سے روشنی ڈالی گئی۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ جو بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ ہوگا اس پر عمل کیا جائے گا۔‘‘
اس دوران جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبد اللہ نے کہا ’’مجھے خوشی ہے کہ سماعت اختام پذیر ہوگئی۔ ہم ہمیشہ جانتے تھے کہ فیصلہ محفوظ رکھا جائے گا۔ اب ہم عدالت کے فیصلے کا انتظار کریں گے۔‘‘
عمر عبداللہ کا مزید کہنا تھا ’’درخواست گزاروں کے وکلاء نے بنچ کے سامنے کیس کے حقائق پیش کرتے ہوئے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔‘‘
وہیںعوامی نیشنل کانفرنس کے نائب صدر مظفر شاہ نے اس حوالے سے بتایا کہ سپریم کورٹ نے دفعہ ۳۷۰ کی منسوخی کی عرضیوں پر ۱۶ دنوں تک شنوائی کی۔ انہوں نے کہا اس دوران عدالت عظمی نے عرضی گزاروں اور سرکار کے موقف کو غور سے سنا۔انہوں نے کہا کہ جو دلائل عرضی گزاروں کے وکلاء نے کورٹ کے سامنے رکھے اس حساب سے یہ کیس ہمیں لگ رہا ہے کہ یہ کیس ہم جیت گئے ہے۔
شاہ نے کہا کہ دفعہ ۳۷۰ کو بھارت کے آئین نے جموں و کشمیر کے عوام کو دیا تھا اور آج یہ کیہ رہے کہ۷۰سال کے بعد کہ اسے منسوخ کیا جائے گا۔انہوں نے کہا کہ پانچ ججوں کی پیچ نے کیس کو غور سے سنا اور فیصلہ کو محفوط رکھا۔ جس طرح سے عرضی گزار کے وکلاء نے اس کیس کا دفاع کیا، اب لگ رہا ہے کہ بی جے پی کے پاس کچھ نہیں بچا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے حساب سے یہ کیس جموں وکشمیر کے لوگوں کے حق میں ہے اور بی جے پی کو اس کیس میں ہار ہوگی۔
عوامی نیشنل کانفرنس کے لیڈر نے کہا کہ سپریم کورٹ میں شنوائی کے دوران تمام قانونی زاویہ کو دیکھا گیا اور ہر ایک چیز پر باریک بینی سے غور کر کے فیصلہ کو محفوظ کرلیا گیا۔ شاہ نے کہا کہ ہمیں لگ رہا ہے کہ کیس کا فیصلہ جموں وکشمیر عوام کے حق میں ہوگا، باقی اب ہم کورٹ کے فیصلہ کا انتظار کریں گے۔
واضح رہے کہ مرکزی سرکار نے۲۰۱۹ کے اگست مہینے کی ۵تاریخ کو جموں و کشمیر کو دفعہ ۳۷۰کے تحت حاصل خصوصی حیثیت منسوخ کی تھی اور سابق ریاست کو دو مرکزی زیر انتظام خطوں … جموں و کشمیر اور لداخ میں تقسیم کیا تھا۔
دفعہ ۳۷۰کی منسوخی کے فیصلے کے تقریباً چار برس بعد سپریم کورٹ نے معاملے پر سماعت روزانہ کی بنیاد پر شروع کی تھی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس نے واضح کیا تھا کہ پانچ اگست کے بعد خطے کی حالات کو مدنظر نہیں رکھا جائے گا تاہم اس بات پر بحث ہوگی کہ فیصلہ آئینی طور لیا گیا تھا یا نہیں۔