ہر عروج کا زوال ہے… زوال، عروج کے مقدر میں لکھا گیا ہے اور… اور زور اول سے لکھا گیا ہے۔لیکن صاحب کیا کیجئے گا کہ یہ چھوٹی سی بات ہماری سمجھ میں نہیں آ تی ہے یا پھر اس چھوٹی سی بات کو ہم سمجھنا نہیں چاہتے ہیں… بالکل بھی نہیں چاہتے ہیں ۔ جب ہم کامیابی کے گھوڑے پر سوار ہو جاتے ہیں تو… تو ہمیں اس کامیابی کے علاوہ دائیں بائیں کچھ دکھائی نہیں دیتا ہے… اگر کبھی کچھ دکھائی دے گا بھی تو ہماری نظروں میں ان کی اوقات چھوٹے موٹے رینگتے کیڑوں سے زیادہ نہیں ہوتی ہے… بالکل بھی نہیں ہو تی ہے… اور ایسا اس لئے ہے کیونکہ ہم اس دھوکے میں ہوتے ہیں کہ… کہ کامیابی کے جس گھوڑے پر ہم سوار ہے‘ یہ یونہی سرپٹ سرپٹ دوڑتا رہے گا … یونہی تیز رفتار ہوا میں باتیں کرے گا … یہ کبھی رکے گا نہیں … ہم یہ سوچنے کیلئے تیار ہی نہیں ہو تے ہیں کہ… کہ ایک دن یہ گھوڑا… کامیابی کا گھوڑا لنگڑا بھی ہو سکتا ہے… بوڑھا بھی ہو سکتا ہے…اس کی رفتار بھی کم ہو سکتی ہے… ہم یہ نہیں سوچتے ہیں… ہم یہ سوچنا نہیں چاہتے ہیں…اور صاحب ایسا اس لئے ہے کیوںکہ ہم نے روپے پیسوں کو ہی کامیابی کا معیار بنا لیا ہے… سمجھ لیا ہے… لیکن روپے پیسے کامیابی نہیں ہے… اصل صحت سے بڑی کوئی کامیابی نہیں ہے‘ نیک شریک حیات ‘ ایک نعمت ہے ‘ایک کامیاب زندگی کی کلید ‘ اولاد صالح سب سے بڑی نعمت ہے… سب سے بڑی کامیابیو ں میں سے ایک… کیا کیجئے گا دولت کے ان انباروں کا اگر آپ کی صحت اچھی نہ رہے ‘ آپ کی شریک حیات کا سکون چھین لیں تو دنیا کی کوئی دولت آپ کو یہ سکون خرید نہیں سکے گی… بچے اگر غلط راستے پر چل پڑیں تو آپ کی زندگی جہنم بن جائیگی … اور سو فیصد بن جائیگی … آپ شوق سے کامیابی کے گھوڑے پر سوار ہو جائیے ‘ ہمیں اعتراض یا انکار نہیں … لیکن … لیکن اپنی اس کامیابی کے گھوڑے کے پاؤں تلے کسی کو روند مت دیجئے کہ … کہ وقت کب پلٹ جائے … کب وہ باغی ہو جائے ‘ کب وقت آپ کا وقت خراب کر دے کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا ہے… بالکل بھی نہیں کہہ سکتا ہے کیونکہ… عروج کے ساتھ زوال بھی ہو تا ہے … اور سو فیصد ہو تا ہے ۔ ہے نا؟