ممبئی// راجستھان رائلز کے کپتان سنجو سیمسن کو بلے بازی کرتے دیکھنا خوشی کی بات ہے لیکن اگر وہ اپنی اچھی فارم کے باوجود غلط شاٹ کھیلنے کے بعد آؤٹ ہو جاتے ہیں تو یہ مایوس کن ہے۔ ویسٹ انڈیز کے سابق کرکٹر اور معروف کمنٹیٹر ایان بشپ کا خیال ہے کہ سیمسن اپنی اچھی فارم کو برباد کر رہے ہیں اور اس سے ان کے بین الاقوامی کیریئر پر بھی اثر پڑ سکتا ہے، جہاں وہ کامیاب واپسی کی کوشش کر رہے ہیں۔
منگل کو رائل چیلنجرز بنگلور کے خلاف میچ میں جب سیمسن بلے بازی کے لیے آئے تو راجستھان رائلز کا اسکور 33 رنز پر دو وکٹ تھا۔ اسی اسکور پر جوس بٹلر بھی آوٹ ہوگئے۔ سیمسن نے جو پہلی گیند کھیلی، وہ تیزی سے چار رنز کے لیے گئی۔ اس کے بعد تیسری گیند پر انہوں نے ایکسٹرا کور پر ونیندو ہسرنگا کی گیند پر چھ رنز کے لئے نشانہ بنایا۔ شہباز احمد پر لگاتار دو چھکے لگانے کے بعد ان کا سکور 12 گیندوں پر 24 رنز تھا۔ اس کے بعد اس نے نو گیندیں کھیلی، اپنی اننگز کو سست کیا اور صرف تین رنز بنائے۔ اس کے بعد ہسرنگا کی ایک گوگلی گیند ریورس سویپ کرنے کی کوشش میں کلین بولڈ ہو گئی۔
بشپ نے کہا، "سیمسن کے لیے یہ ایک اچھا موقع تھا۔ جوس بٹلر کے آؤٹ ہونے کے بعد وہ اپنی ٹیم کو ایک بڑے اسکور تک لے جا سکتے تھے۔ وہ فارم میں بھی تھے۔ وہ اس سے پہلے ہسرنگا کو اچھی طریقے سے نہیں کھیل سکے تھے ۔ اس لیے انھیں خیال رکھنا چاہیے تھا۔ میں سنجو سیمسن کا مداح ہوں، لیکن وہ اپنے شاٹ سلیکشن سے مایوس کرتے ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ ہسرنگا نے سیمسن کو چھ ٹی ٹوئنٹی اننگز میں پانچ بار آؤٹ کیا ہے۔ نیوزی لینڈ کے سابق کپتان ڈینیئل ویٹوری بھی بشپ سے متفق نظر آئے۔ انہوں نے کہا کہ بعض اوقات سیمسن بہت جلد بازی کرنا چاہتے ہیں۔ "وہ اس قسم کےکھلاڑی ہیں جسے کوئی بھی اپنی ٹیم میں شامل کرنا چاہے گا۔ وہ میچ ونر ہیں اور کسی بھی گیند باز کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔اس کے باوجود وہ ابھی تک کچھ خاص بین الاقوامی کرکٹ نہیں کھیل سکے ہیں۔
ویٹوری نے مزید کہا، "جب وہ کھیلتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ بیٹنگ کرنا کتنا آسان ہے۔ وہ ہمیشہ نئی چیزیں کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جب وہ گیند باز کے سر کے او پر شاٹ لگاتے ہیں تو وہ بہترین نظر آتے ہیں ۔ انہیں کھیلتے ہوئے دیکھ کر خوشی ہوتی ہے۔ لیکن جب وہ اچھی شروعات کے بعد بھی جلدی آؤٹ ہو جاتے ہیں تو اس سے مایوسی ہوتی ہے۔ جب آپ 18 یا 20 گیندوں میں 30 رنز بنا لیتے ہیں، تجربہ کار کھلاڑی ہونے کے ناطے آپ کو اس اننگز کو مزید بڑا کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘