تحریر:ہارون رشید شاہ
آج رمضان المبارک کا۲۲واں دن ہے اور فی الحال مساجد نمازیوں سے بھری ہوئی ہیں‘آباد ہیں ۔ لوگ ہول سیل میں نمازیں بھی ادا کررہے ہیں اور مساجد میں جا رہے ہیں ۔ جو لوگ اللہ میاں کے گھر میں باقی گیارہ مہینوں میں بھی حاضر رہتے ہیں وہ بے چارے رمضان المبارک میں اللہ میاںکے گھر میں اجنبی بن جاتے ہیں ‘اکثریت سے یہ یک دم اقلیت میں آجاتے ہیں اور کوئی انہیں پوچھتا تک نہیںہے ۔ پہلی صف میں جگہ ملنا تو دور کی بات ہے دوسری اور تیسری بھی انہیں نصیب نہیںہوتی ۔ ہم خوش ہوتے ہیں کہ کم از کم اس ایک ماہ کیلئے ہم اللہ میاں کا گھر آباد تو کرتے ہیں ۔ ہم اسے ایک بڑی عبادت سمجھتے ہیں ‘عبادت ہی نہیں سمجھتے ہیں بلکہ ہم سمجھتے ہیں کہ مساجد میں با جماعت نماز ادا کرکے ہم نے رمضان المبارک کی حق ادائیگی کی ۔ لیکن اللہ میاں کی قسم ہم یہ نہیں جانتے ہیں کہ دین مسجد میں ہی نہیں مسجد کے باہر بھی ہے ۔اور ہم ہیں کہ اس کا بالکل الٹا کرتے ہیں … مسجد سے باہر تو ہم نکلتے ہیں لیکن دین مسجد میں ہی چھوڑ جاتے ہیں … اللہ میاں کی حفاظت میں ۔ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم مسجد سے باہر نکلتے وقت دین کو بھی اپنے ساتھ لے آتے تاکہ ضرورت پڑنے پر ہم اس کی طرف رجوع کرتے …اپنے تمام معاملات اسی کی رہنمائی میں نمٹاتے ۔ لیکن بھیا یہ تھوڑا مشکل کام ہے …اور اس مشکل کام کیلئے آپ تیار ہیں اور نہ ہم …اس لئے مسجد سے باہر ہم اکیلے ہی نکل آتے ہیں اور دین کو مسجد میں چھوڑ جاتے ہیں ۔مسجد سے باہر آتے وقت ہم بڑے مطمئن ہوتے ہیں کہ آج ہم نے با جماعت نماز ادا کی …اور جب اس نماز کو اچھائی اور برائی میں ایک دیوار کی طرح حائل کرنے کا وقت آتا ہے تو ہم اس دیوار کو خود ہی منہدم کرتے ہیں …اس لئے منہدم کرتے ہیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ دین مسجد کی چار دیواری کے اندر ہے … اسے مسجد کی چار دیواری کے اندر ہی اپنانا ہے ‘باہر جاکے نہیں … مسجد سے باہر نکلتے ہی ہم اس کو ٹاٹا بائی بائی کہتے ہیں ۔ہے نا ؟