سرینگر//(ویب ڈیسک)
وزیر اعظم ‘نریندر مودی نے آج یکساں سول کوڈ کے لیے مضبوط موقف پیش کرتے ہوئے کہا کہ کسی ملک میں دو قانون نہیں ہو سکتے۔ان کاکہنا تھا’’کیا کوئی ایک خاندان کام کرے گا جہاں لوگوں کے لیے دو الگ الگ اصول ہوں؟ تو پھر ملک کیسے چلے گا؟ ہمارا آئین بھی تمام لوگوں کو مساوی حقوق کی ضمانت دیتا ہے‘‘۔
لا کمیشن نے یکساں سول کوڈ پر مختلف اسٹیک ہولڈرز سے آراء طلب کی ہیں‘ اور یہ اطلاعات ہیں کہ حکومت پارلیمنٹ کے اگلے اجلاس میں ایک بل لا سکتی ہے۔
مدھیہ پردیش ‘جہاں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں‘میں پارٹی کی’میرا بوتھ سب سے مضبوط‘ مہم کے تحت بی جے پی کے کارکنوں کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے پی ایم مودی نے کہا کہ جو لوگ ملک کے لیے ایک مشترکہ قانون کی مخالفت کرتے ہیں وہ اپنے مفادات کے لیے لوگوں کو اکسا رہے ہیں۔
وزیراعظم نے کہا’’ہندوستانی مسلمانوں کو یہ سمجھنا پڑے گا کہ کون سی سیاسی جماعتیں اپنے فائدے کے لیے انہیں اکساتی اور تباہ کر رہی ہیں‘‘۔ انہوں نے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ آئین بھی تمام شہریوں کیلئے مساوی حقوق کی بات کرتا ہے‘ کہا کہ سپریم کورٹ نے یکساں سول کوڈ کیلئے بھی کہا ہے۔
پی ایم مودی نے ممنوعہ’تین طلاق‘ پر سوال اٹھاتے ہوئے پوچھا کہ اگر یہ اسلام سے نا قابل تنسیخ ہے تو مصر، انڈونیشیا، قطر، اردن، شام، بنگلہ دیش اور پاکستان جیسے مسلم اکثریتی ممالک میں اس پر عمل کیوں نہیں کیا جاتا؟ مصر میں، جہاں سنی مسلمان آبادی کا ۹۰ فیصد ہیں‘۸۰ سے۹۰ سال قبل تین طلاق کو ختم کر دیا گیا تھا۔
پی ایم نے کہا’’جو لوگ تین طلاق کی وکالت کرتے ہیں، وہ ووٹ بینک کے بھوکے ہیں، وہ مسلم بیٹیوں کے ساتھ سنگین ناانصافی کر رہے ہیں‘‘۔
مودی نے کہا کہ طلاق ثلاثہ سے صرف خواتین ہی نہیں بلکہ پورے خاندان کو تباہ کر دیتی ہے۔’’ جب ایک عورت، امیدوں سے بھری شادی کے بعد، تین طلاق کے بعد واپس بھیجی جاتی ہے، تو اس کے والدین اور بھائی اس کے درد کو محسوس کرتے ہیں‘‘۔
پی ایم مودی نے کہا’’کچھ لوگ مسلم بیٹیوں پر تین طلاق کا پھندا لٹکانا چاہتے ہیں تاکہ ان پر ظلم کرتے رہنے کے لیے وہ آزاد رہیں‘‘۔ پی ایم مودی نے مزید کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو تین طلاق کی حمایت کرتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ یہی وجہ ہے کہ مسلم بہنیں اور بیٹیاں، میں جہاں بھی جاتا ہوں، بی جے پی اور مودی کے ساتھ کھڑی ہوتی ہیں۔
وزیر اعظم نے’بی جے پی کو نشانہ بنانے والوں‘ پر بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ واقعی مسلمانوں کے خیر خواہ ہوتے، تو کمیونٹی کے زیادہ تر خاندان تعلیم اور روزگار میں پیچھے نہ رہتے، اور مشکل زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے۔
اس ماہ کے شروع میں، لاء کمیشن نے سیاسی طور پر حساس معاملے پر عوامی اور تسلیم شدہ مذہبی تنظیموں سمیت اسٹیک ہولڈرز سے آراء طلب کرکے یکساں سول کوڈ پر ایک تازہ مشاورتی عمل کا آغاز کیا۔
یکساں سول کوڈ کا مطلب ہے ملک کے تمام شہریوں کے لیے ایک مشترکہ قانون ہونا جو مذہب پر مبنی نہیں ہے۔ وراثت، گود لینے اور جانشینی سے متعلق ذاتی قوانین اور قوانین ایک مشترکہ ضابطہ کے تحت آنے کا امکان ہے۔ اتراکھنڈ جیسی ریاستیں اپنا مشترکہ ضابطہ بنانے کے عمل میں ہیں۔
وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ یکساں سول کوڈ آئین ہند کے ہدایتی اصولوں کا حصہ ہے اور اپوزیشن اسے ’ووٹ بینک کی سیاست‘کا لیبل لگا کر اس مسئلے کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہی ہے۔
مودی نے حال ہی میں پٹنہ میں منعقدہ کانگریس سمیت اپوزیشن جماعتوں کی میٹنگ پر بھی پوری اپوزیشن کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ ان کی ’گارنٹی‘ صرف گھپلے کی ہے اور یہ سب ان کے خلاف کارروائی سے بچنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ایک ایک کرکے اپوزیشن پارٹیوں کا نام لیتے ہوئے انہوں نے ان کے مبینہ بدعنوانیوں کا حوالہ دیا اور ان پر ہزاروں کروڑ روپے کے گھپلوں کا الزام لگایا۔مودی نے کہا کہ اگر اپوزیشن پارٹیوں کے پاس بدعنوانی کی گارنٹی ہے تو ان کی (خود مودی) کی بھی گارنٹی ہے، ہر بدعنوانی کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔انہوں نے کنبہ پروری کا بہانہ بنا کر اپوزیشن پر شدید حملہ کیا۔
کانگریس کے گاندھی خاندان کے علاوہ نیشنل کانفرنس کے فاروق عبداللہ، سماج وادی پارٹی کے آنجہانی ملائم سنگھ یادو، ڈی ایم کے کے ایم کروناندھی، راشٹریہ جنتا دل کے لالو پرساد یادو، این سی پی کے شرد پوار اور بھارت راشٹرا سمیتی کے کے چندر شیکھر راؤ کی مبینہ اقربا پروری پر بھی تنقید کی۔
اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم نے کہا کہ اگر کوئی ان پارٹیوں کے سربراہوں کے خاندان کا بھلا کرنا چاہتا ہے تو انہیں ووٹ دیں اور اگر وہ شخص اپنے کنبہ کا بھلا کرنا چاہتا ہے تو وہ بی جے پی کو ووٹ دے۔
وزیر اعظم نے مدھیہ پردیش سمیت پانچ ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات سے قبل کانگریس کی قرض معافی اسکیم پر بھی کانگریس کو گھیرا۔ انہوں نے کہا کہ کانگریس کی ایک ہی پالیسی تھی، پہلے کسانوں کو مصیبت میں ڈالو، پھر قرض معافی کے نام پر ووٹ حاصل کرو، یہ ان کا طریقہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ۱۰ برسوں میں کانگریس نے چند ہزار کروڑ کی قرض معافی کا اعلان کیا، لیکن یہ فائدہ حقیقی کسانوں تک کبھی پہنچا ہی نہیں۔