ہمارے شہر … شہر خستہ کے کتے بڑے ہی قسمت والے ہیں… شاید انسانوں سے بھی زیادہ قسمت والے کہ … کہ ہم جئیں یا مریں کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا ہے… ہم کس حال بے حال میں ہیں‘ کوئی فکر کرنے والا نہیں ہے… لیکن ان کتوں کے ساتھ معاملہ کچھ اور ہے… مختلف ہے اور ہاں انسان دوست … معاف کیجئے کتا دوست بھی ہے ۔ اور اس لئے ہے کہ کسی کو ان کی فکر ہے ‘ کسی کو ان کا خیال ہے… اس بات کا خیال ہے کہ ہمارے شہر خستہ کے کتے کس حال میں ہیں… کیسے ہیں ‘ کہاں ہیں ‘ اس سب کی کوئی فکر کرنے والا ہے … اتنی فکرکہ وہ دہلی سے چل کے… ‘ چل کے نہیں بلکہ اڑ کے آئی ہیں اور… اور ان کا حال دریافت کیا… اور ساتھ ہی اس بات کی خبر بھی لی کہ کہیں ان کتوں کے ساتھ کوئی زیادتی تو نہیں کی جا رہی ہے… ان کے انسانی … معاف کیجئے ‘ ان کے جانوروں کے حقوق پامال تو نہیں کئے جا رہے ہیں‘ انکے حقوق کا خیال رکھا جارہا ہے‘ ان کا تحفظ یقینی بنایا جارہا ہے یا نہیں… یہ سب جاننے کیلئے میڈم منیکا گاندھی اپنے شہر خستہ میں خیمہ زن ہیں… اور ہاں ہوں گی بھی کیوں نہیں کہ… کہ یہ وہیں منیکا گاندھی ہیںجو اپنے شہر خستہ کے کتوں کی آبادی میں ہوشربا اضافہ کی واحد ذمہ دار ہیں… یہ اپنے شہر خستہ کے انسانوں کی نہیں بلکہ اس شہر کے کتوں کی محسن ہیں… اور… اور اگر کتوں… شہر خستہ کے کتوں کو ان کی آمد کی خبر پیشگی میں ملتی تو … تو وہ یقینا انہیں سرینگر کے ہوائی اڈے سے ایک جلوس کی صورت میں لاتے … جبکہ محترمہ کا ہوائی اڈے پر ہی گارڈ آف آنر بھی پیش کرتے … لیکن شاید کتوں کو ان کے محسن کے آنے کی خبر نہیں ہوئی یا دیر سے ہوئی اس لئے … منیکا گاندھی کو ہوائی اڈے سے انسانوں کے ساتھ آنا پڑا … اور یقین کیجئے گا کہ ہمیں اس کا افسوس ہے… وہ کیا ہے کہ … کہ یہ میڈم گاندھی کیلئے بڑے اعزاز کی بات ہو تی اگر ہوائی اڈے پر ان کا استقبال شہرخستہ کے کتے ہی کرتے… لیکن کوئی بات نہیں کہ… آج نہیں تو پھر کبھی کہ … کہ اللہ میاں میڈم منیکا کو سلامت رکھے …رہی کتوں… اپنے شہر خستہ کے کتوں کی بات تو… تو منیکا گاندھی کے ہو تے ہو ئے انہیں کون ہاتھ لگائے گا… ہاں کتے ہاتھ ہی نہیں بلکہ پاؤں اور منہ اور دانت بھی ہمیں… ہم انسانوں کو‘ اس شہر خستہ کے انسانوں کو لگا سکتے ہیں… لیکن… لیکن ہم نہیں ‘ ہم انہیں چھو بھی نہیں سکتے ہیں۔ ہے نا؟