سرینگر//(ویب ڈیسک )
وزیر اعظم نریندر مودی اتوار کو نئے پارلیمنٹ کمپلیکس کی نقاب کشائی کریں گے۔ جیسا کہ ہم افتتاح کا بے صبری سے انتظار کر رہے ہیں، آئیے ہم ان مخصوص خصوصیات کا جائزہ لیں جو نئی پارلیمنٹ کی عمارت کو موجودہ عمارت سے متعین کرتی ہے جو نسلوں سے قائم ہے۔
حکومتی اعداد و شمار کے مطابق‘ موجودہ پارلیمنٹ کی عمارت‘ جو۱۹۲۷میں تعمیر کی گئی تھی‘کو کبھی بھی مکمل جمہوریت کے لیے دو ایوانوں والی مقننہ کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے ڈیزائن نہیں کیا گیا تھا۔۱۹۷۱ کی مردم شماری پر مبنی حد بندی کے بعد سے لوک سبھا کی نشستوں کی تعداد۵۴۵مقرر ہونے کے بعد، عمارت کے بیٹھنے کے انتظامات تنگ اور بوجھل ہو گئے ہیں۔
مشترکہ اجلاسوں کے دوران‘بیٹھنے کی محدود گنجائش مسئلہ کو بڑھا دیتی ہے۔ مزید برآں، نقل و حرکت کے لیے جگہ کی کمی ایک اہم حفاظتی خطرہ ہے۔ ۲۰۲۶ کے بعد اس میں کافی اضافہ ہونے کا امکان ہے کیونکہ سیٹوں کی موجودہ تعداد صرف۲۰۲۶ تک ہی ہے۔
قانون ساز ایوانوں کے اندر جگہ کی حدود کو دور کرنے پر توجہ دینے کے ساتھ، حکومت نے پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں لوک سبھا کی نشستوں کو ۸۸۸؍ اور راجیہ سبھا کی نشستوں کو۳۴۸تک بڑھانے کا منصوبہ بنایا ہے۔پرانی عمارت میں لوک سبھا کی۵۴۳ نشستیں اور راجیہ سبھا کی۲۵۰ نشستیں ہوسکتی ہیں۔
دو قانون ساز ایوانوں کے علاوہ، نئے کمپلیکس میں مرکزی طور پر واقع ’آئینی ہال‘کی شکل میں ایک قابل ذکر اضافہ بھی ہوگا۔
پرانے پارلیمنٹ ہاؤس کے برعکس، نئے میں سینٹرل ہال نہیں ہوگا۔ اس کے بجائے، نئے پارلیمنٹ ہاؤس میں لوک سبھا ہال کو آسانی سے مشترکہ اجلاسوں کو ایڈجسٹ کرنے کے لیے ڈیزائن کیا جا رہا ہے۔ یہ مشترکہ اجلاسوں کے دوران اضافی کرسیاں لگانے کی ضرورت کو ختم کرتے ہوئے۱۲۷۲؍ افراد کے بیٹھنے کے قابل ہو گا۔
نئی عمارت میں چھ کمیٹی روم بھی ہوں گے جو جدید ترین آڈیو ویڑول سسٹم سے لیس ہوں گے۔ موجودہ ڈھانچے کے مقابلے میں یہ ایک نمایاں بہتری ہے جس میں صرف تین ایسے کمرے ہیں۔
پارلیمنٹ کی پرانی عمارت کی سرکلر شکل کے برعکس، نئی عمارت تقریباً۶۵ہزار مربع میٹر کے رقبے پر محیط، جگہ کے استعمال کو بہتر بنانے کے لیے تکونی شکل اختیار کرتی ہے۔
پارلیمنٹ کی نئی عمارت کی ایک اہم خصوصیت علامتی ’سینگول‘(عصا) کی شمولیت ہے، جسے لوک سبھا میں اسپیکر کی نشست کے ساتھ رکھا جائے گا۔ مرکزی حکومت نے کہا کہ سینگول تاریخی ’اقتدار کی منتقلی‘کی نمائندگی کرتا ہے جو۱۹۴۷ میں ہوا تھا، جب انگریزوں نے اختیار سے دستبردار ہو کر ملک کی باگ ڈور ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کے حوالے کی تھی۔
پارلیمنٹ کی نئی عمارت کی تعمیر کے باوجود، حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ پرانے اور نئے دونوں ڈھانچے مل کر کام کریں گے تاکہ پارلیمانی کارروائیوں کے ہموار اور موثر کام کو یقینی بنایا جا سکے۔