جموں//
پونچھ میں گھات لگا کر حملے کی تحقیقات میں پہلی اہم پیش رفت کے طور پر، سیکورٹی فورسز نے ایک ایسے شخص کو گرفتار کر لیا، جس نے مبینہ طور پر دہشت گردوں کو ۲۰؍ اپریل کو حملہ کرنے سے پہلے کم از کم دو ماہ تک ’پناہ‘ اور’سپورٹ‘ فراہم کی تھی۔اس حملے میں پانچ فوجی ہلاک ہو ئے تھے۔
اس دوران حملہ آوروں کا سراغ لگانے کیلئے سرچ آپریشن چھٹے روز میں داخل ہو گیا۔
ذرائع نے ایک مقامی خبر رساں ایجنسی کو بتایا کہ زیر حراست ۵۰؍ افراد کے بیانات کی جانچ پڑتال کے بعد فورسز نے ایک مقامی شخص‘ ناصر کو دہشت گردوں کو پناہ دینے اور ان کی مدد کرنے میں ملوث ہونے کے الزام میں ملوث پایا۔
فوج کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل اوپیندر دویدی نے راجوری اور پونچھ کے جڑواں سرحدی اضلاع کا دورہ کیا اور جاری آپریشن کا جائزہ لیا، حکام نے بتایا کہ انہوں نے فوجیوں سے کہا کہ وہ اپنے تعاقب میں مسلسل رہیں۔ ایک ہفتے سے بھی کم عرصے میں آرمی کمانڈر کا خطے کا یہ دوسرا دورہ تھا۔
گزشتہ جمعرات کو پونچھ میں دہشت گردوں کے ذریعہ ان کی گاڑی پر حملہ کرنے کے بعد فوج کے پانچ اہلکار ہلاک اور ایک شدید زخمی ہو گیا تھا۔حملے کے بعد ایک بڑے پیمانے پر تلاشی اور محاصرے کی کارروائی شروع کی گئی تھی اور اب یہ پونچھ اور راجوری کے جڑواں اضلاع کے ۱۲ علاقوں میں پھیل چکی ہے۔
ذرائع نے دعویٰ کیا کہ مسلسل پوچھ گچھ اور بیانات کی جانچ پڑتال کے بعد، ناصر نے اپنے ملوث ہونے کا اعتراف کیا اور تفتیش کاروں کو بتایا کہ اس نے دہشت گردوں کو دو ماہ سے زائد عرصے تک اپنے گھر پر پناہ دی اور ’انہیں لاجسٹک اور مادی مدد فراہم کی‘۔انہوں نے کہا کہ ’’کچھ حراست میں لیے گئے افراد کو پوچھ گچھ کے بعد چھوڑ دیا گیا‘‘۔
ذرائع نے بتایا کہ اسپیشل فورسز بھی سرچ آپریشن میں مصروف ہیں، انہوں نے مزید کہا کہ ایجنسیوں کو ڈرون، سونگھنے والے کتوں اور میٹل ڈیٹیکٹرز کی مدد حاصل ہے۔انہوں نے کہا کہ جنگلاتی علاقوں، گہرے گھاٹیوں، قدرتی غاروں اور گھنی نشوونما کا ایک بڑا پھیلاؤ تلاش کیا گیا ہے اور اب یہ آپریشن دیگر جگہوں کا احاطہ کر رہا ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ اس دوران پونچھ کے جھلاس علاقے میں سرحد پار سے ایک غبارہ دیکھا گیا۔
ابتدائی تفتیش کے مطابق، دہشت گرد مبینہ طور پر سڑک کے کنارے ایک پل میں چھپے ہوئے تھے جہاں سے انہوں نے ٹرک پر حملہ کیا جو کہ بھمبر گلی کیمپ سے سنگیوٹے گاؤں کی طرف سے افطار کے لیے جا رہا تھا۔
ذرائع نے بتایا کہ گاڑی پر گولیوں کے ۵۰سے زیادہ نشانات دیکھے گئے جو دہشت گردوں کی فائرنگ کی شدت کو ظاہر کرتے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ آپریشن میں شامل فوجی انتہائی احتیاط برت رہے ہیں کیونکہ ہو سکتا ہے کہ دہشت گردوں نے گہری گھاٹیوں اور غاروں کے ساتھ گھنے جنگلاتی علاقے میں دیسی ساختہ بم نصب کیے ہوں۔
مارے گئے فوجیوں کا تعلق انسداد دہشت گردی آپریشن کے لیے تعینات راشٹریہ رائفلز یونٹ سے تھا۔
حکام نے بتایا کہ نیشنل سیکورٹی گارڈ (این ایس جی) اور نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی (این آئی اے) سمیت مختلف ایجنسیوں کے ماہرین نے حملے کی جگہ کا دورہ کیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایک سنائپر نے گاڑی کو آگے سے نشانہ بنایا اس سے پہلے کہ اس کے ساتھیوں نے مخالف سمت سے گاڑی پر گولیاں برسائیں اور گرینیڈ پھینکے، بظاہر فوجیوں کو جوابی کارروائی کا وقت نہیں ملا۔
ذرائع نے کہا’’دہشت گردوں نے اسٹیل کوٹیڈ گولیوں کا استعمال کیا جو بکتر بند ڈھال میں گھس سکتی ہیں‘‘۔ انہوں نے مزید کہا’’فرار ہونے سے پہلے، دہشت گردوں نے فوجیوں کا اسلحہ اور گولہ بارود چرا لیا‘‘۔