سرینگر/۲۵اپریل
وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر نے کہا ہے کہ ایک ایسے پڑوسی ملک کے ساتھ بات چیت انتہائی مشکل ہے جو ہمارے خلاف سرحد پار دہشت گردی کرتا ہو۔
جے شنکر نے یہ بات پاناما دورے کے دوران ایک پریس کانفرنس کے دوران کہی۔
جے شنکر سے سوال کیا گیا تھا کہ کیا وہ چار اور پانچ مئی کو گوا میں شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے موقعے پر اپنے پاکستانی ہم منصب بلاول بھٹو زرداری سے ملیں گے یا نہیں؟
وزیر خارجہ نے پریس کانفرنس میں مزید کہا’ ’ہم نے ہمیشہ کہا ہے کہ انہیں سرحد پار دہشت گردی روکنے، اس کی حوصلہ افزائی اور اسے سپانسر نہ کرنے کے اپنے عزم کو پورا کرنا ہوگا۔ ہمیں امید ہے کہ ایک دن ہم اس مرحلے تک پہنچ جائیں گے۔“
وزیر خارجہ کے اس بیان پر تاحال پاکستان کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے اور انڈین وزیر خارجہ نے یہ بیان پانامہ کے وقت کے مطابق رات کو دیا ہے جب وہاں 24 تاریخ تھی تاہم پاکستان 25 تاریخ شروع ہوچکی تھی۔
پاکستان کے وزیر خارجہ ‘بلاول بھٹو زرداری اگلے ماہ گوا میں شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شرکت کریں گے، جو 2016 کے بعد اسلام آباد کے کسی اعلیٰ سفارت کار کا پہلا انڈیا کا سرکاری دورہ ہے۔
ساڑھے چھ سال بعد کسی پاکستانی سیاسی رہنما کا یہ دورہ بھارت ہو گا۔ جبکہ وزیر خارجہ پاکستان کا یہ دورہ 12 برس بعد ہے۔ اس سے قبل دسمبر 2016 میں مشیر خارجہ سرتاج عزیر نے بھارت کا دورہ کیا تھا۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز ہارٹ آف ایشیا کانفرنس میں شرکت کے لیے امرتسر گئے تھے۔ جولائی 2011 میں وزیر خارجہ حنا ربانی نے بھارت کا دورہ کیا تھا۔
پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے جمعرات کو ہفتہ وار بریفنگ میں کہا ’اجلاس میں ہماری شرکت شنگھائی تعاون تنظیم کے چارٹر اور عمل سے پاکستان کی وابستگی اور اس اہمیت کی عکاسی کرتی ہے جسے پاکستان اپنی خارجہ پالیسی کی ترجیحات میں خطے کے لیے دیتا ہے۔‘
اگرچہ یہ واضح نہیں کہ آیا بلاول بھٹو زرداری اس موقعے پر انڈین حکام کے ساتھ کوئی دو طرفہ ملاقاتیں کریں گے، لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ دورہ اہم ہے۔
اسلام آباد میں مقیم ایک تجزیہ کار قمر چیمہ نے کہا، ’انڈیا کے ساتھ اقتصادی تعلقات کے لیے وسیع تر اعتماد سازی کے اقدامات کی ضرورت ہے، یہ پاک انڈیا تعلقات کی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ہے۔‘
ہندوستان اس وقت شنگھائی تعاون تنظیم کا صدرہے، جس کا قیام 2001 میں ہوا تھا اور اسے مغربی اداروں کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک سیاسی، اقتصادی اور سیکورٹی تنظیم سمجھا جاتا ہے۔
۔