نئی دہلی/واشنگٹن//
امریکہ نے واضح کیا ہے کہ وہ اروناچل پردیش کو ہندوستان کا حصہ مانتا ہے اور اروناچل پردیش کے۱۱مقامات کا نام تبدیل کرکے جنوبی تبت رکھ کر یکطرفہ طور پر علاقائی توسیع پسندی کی چین کی کوششوں کی شدید مخالفت کرتا ہے ۔
وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرن جین پیئر ے نے ہندوستان کی ریاست اروناچل پردیش میں۱۱مقامات کے نام تبدیل کرنے کی کوششوں پر امریکی موقف واضح کرنے پر ایک سوال کے جواب میں کہا’’جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ امریکہ نے طویل عرصے سے اس علاقے کو تسلیم کیا ہوا ہے ۔ اور ہم علاقوں کے نام تبدیل کرکے علاقائی دعوؤں کی توسیع پسندی کی کسی بھی یکطرفہ کوشش کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں‘‘۔
پیئرے نے مزید کہا’’اور اسی طرح ایک بار پھر یہ وہ چیز ہے جس کے ساتھ ہم ایک طویل عرصے سے کھڑے ہیں‘‘۔
امریکی وائٹ ہاؤس کی ترجمان کا یہ ردعمل منگل کو چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ماؤ ننگ کے اس بیان کے جواب میں آیا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ ہندوستان کی شمال مشرقی ریاست میں۱۱مقامات کا نام تبدیل کرنا چین کے خود مختار حقوق کے تحت ہے ۔
خیال ر ہے کہ چینی ترجمان نے اروناچل پردیش کے۱۱مقامات کو جنوبی تبت کا زنگنان صوبہ قرار دیا اور اس زنگنان کو چین کی سرزمین کا حصہ قرار دیا۔
ہندوستان نے چین کے اس اقدام پر سخت تنقید کی اور منگل کو ہندوستان کی وزارت خارجہ نے اروناچل پردیش میں۱۱مقامات کے نام تبدیل کرنے کی چین کی کوششوں کو سختی سے مسترد کر دیا۔
وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے ایک بیان میں کہا کہ چین نئے نام ایجاد کر سکتا ہے لیکن اس سے یہ حقیقت نہیں بدلے گی کہ اروناچل پردیش ہندوستان کا اٹوٹ حصہ ہے ۔
باگچی نے کہا کہ ہم نے اس طرح کی کوششیں پہلے بھی دیکھی ہیں۔ یہ پہلی بار نہیں ہے کہ چین نے اس طرح کی حرکت کی ہے اور ہم ایسی کوششوں کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔ اروناچل پردیش ہندوستان کا اٹوٹ حصہ تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا اور یہ حقیقت اس کے کسی بھی جگہ کا نام تبدیل کرنے سے نہیں بدلے گی۔
چین کے شہری امور کی وزارت نے چینی زبان کے انداز میں اروناچل پردیش میں۱۱مقامات کے نام جاری کیے ہیں اور ان کا نام ز انگنان رکھا ہے ۔ اس فہرست میں چین نے دو زمینی علاقے ، دو رہائشی علاقے ، پانچ پہاڑی سلسلے اور دو دریاؤں کے ساتھ ان کے ماتحت انتظامی اضلاع کو اپنی حدود میں دکھا یاہے ۔
یہ تیسرا موقع ہے جب چین کے شہری امور کی وزارت نے اروناچل پردیش کے جغرافیائی حصوں کو چینی انداز میں نام دیے ہیں ۔ اس سے پہلے۲۰۱۷میں چھ مقامات پر اور پھر۲۰۲۱میں۱۵مقامات کے حوالے سے اور اس سے قبل اروناچل پردیش میں بھی ہندوستان نے چین کے نام کو مسترد کر دیا ہے ۔
اس سال امریکی سینیٹ میں دو طرفہ قرارداد بھی پیش کی گئی تھی، جس میں اروناچل پردیش کو ہندوستان کا اٹوٹ حصہ قرار دیا گیا تھا۔
قرارداد میں چینی اشتعال انگیزیوں جیسے کہ حقیقی کنٹرول لائن پر زبردستی تبدیلی کی کوششوں، متنازعہ علاقوں میں دیہاتوں کی تعمیر، شہروں کے لیے مینڈارن زبان کے ناموں والے نقشوں اور ہندوستانی ریاست اروناچل پردیش میں سہولیات کی اشاعت وغیرہ پر شدید تنقید کی گئی۔ اس میں بھوٹان کی زمین میں توسیع پسندی کے چین کے دعووں کو بھی مسترد کر دیا گیا۔
ڈیموکریٹک سینیٹر جیف مرکلے اور ریپبلکن بل ہیگرٹی کی طرف سے پیش کردہ دو طرفہ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ ’’امریکہ اروناچل پردیش کو جمہوریہ ہند کا اٹوٹ حصہ تسلیم کرتا ہے متنازعہ علاقہ نہیں اور اسے کسی بھی طرح تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔‘‘