تو صاحب اخبارات’ ماہ رمضان شروع ہوتے ہی گراں بازاری شروع‘ جیسی سرخیوں سے بھرے پڑے ہیں… چاروں طرف شور و غل ہے کہ رمضان شروع ہوتے ہی ساگ سبزیوں اور پھلوں کے دام بڑھا دئے گئے ہیں…اور ساتھ ہی حکومت کو بھی آڑے ہاتھوں لیا گیا ہے کہ وہ قیمتوں کو اعتدال پر رکھنے میں سنجیدہ نہیں ہے…گرچہ وہ دعوے تو بہت کررہی ہے… لیکن زمین پر ان دعوؤں کی کوئی حقیقت نہیں ہے…بالکل بھی نہیں ہے ۔ ہوتی تو بازاروں میں آگ نہیں لگی ہو تی ۔ سچ پو چھئے تو ہمیں اعتراض ہے… لوگوں اور صارفین پر اعتراض ہے ‘ جنہوں نے گراں بازاری کو لے کر آسمان سر پر اٹھا رکھا ہے… خواہ مخواہ اٹھا رکھا ہے ۔وہ یہ بھول گئے ہیں کہ ماہ صیام کمانے کا بھی مہینہ ہے … اس لئے ہمارے سبزی اور پھل بیچنے والے کمارہے ہیں اور… اور اس لئے کما رہے ہیں تو… کیونکہ انہیں لگتا ہے کہ وہ ماہ صیام کا ہی تقاضا پورا کررہے ہیں… اس لئے لوگ خواہ مخواہ ان کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی ناکام سعی کررہے ہیں… انہیں کمانا سے روکنے کی کوشش کررہے ہیں… اور ہمارے خیال میں یہ مناسب نہیں ہے… بالکل بھی نہیں ہے ۔ لوگ اپنے کام سے کام رکھیں اور… اور سبزی اور پھل بیچنے والوں کو اپنا کام کرنے دیں… انہیں کمانے دیں … یقینا ماہ صیام کمانا والا مہینہ ہے… نیکیاں اور ثواب کمانے کا مہینہ ہے…لیکن ہمارے دکانداروں نے اس کا اگر من چاہا مطلب نکالا ہے اور… اور نیکوں کے بجائے روپے پیسہ کمانا سمجھ لیا ہے تو… تو اس میں ہم اور آپ کیا کر سکتے ہیں کہ … کہ یہ پرانی روایت ہے… کشمیر کی روایت … یہ روایت اورکہیںہمیں دیکھنے کو نہیں ملے گی کہ کشمیر سے باہر اس مقدس مہینے میں ہر ایک اشیاء کی قیمت پر چھوٹ دی جاتی ہے‘ قیمتوں میں بھاری کمی کے اعلانات کئے جاتے ہیں اور… اور اللہ میاں کی قسم قیمتوں میں کمی کے اعلانا ت جعلی اور نمائشی نہیں ہو تے ہیں… حقیقی ہوتے ہیں… جن کا مقصد رمضان المبارک جیسے خوشی کے موقع پر صارفین کو خوش کرنا ہے… اور شاید اللہ میاں کو بھی… لیکن صاحب کشمیر میں چونکہ گنگاالٹی بہتی ہے… اس لئے یہاں کے دکاندار بھی گرچہ رمضان المبارک کے موقع پر خوشی دینا چاہتے ہیں… لیکن وہ یہ خوشی گاہکوں اور صارفین کو نہیں بلکہ قیمتوں میں کئی گنا اضافہ کرکے خود کو دینا چاہے ہیں…خود کو دے رہے ہیں… کماکے دے رہے ہیں… روپے اور پیسے کما کے دے رہے ہیں… نیکیاں نہیں ‘ بالکل بھی نہیں ۔ ہے نا؟