وزیراعظم نریندرمودی نے ملک کی سیاسی قیادت یا سیاستدانوں کو براہ راست نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ ’’کچھ پارٹیاں ووٹ بینک کی سیاست کیلئے زبان کا کھیل کھیلتی رہی ہے، مقصدیہ ہے کہ پسماندہ طبقوں سے وابستہ لوگ ڈاکٹر یا انجینئر نہ بن پائیں۔جبکہ زبانوں کو حقیقی معنوں میں مضبوط کرنے کیلئے جتنا کام ہونا چاہئے تھا اتنا ابھی تک نہیں ہوا ہے ۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ ان کی حکومت نے تمام ہندوستانی زبانوں میں میڈیکل کی تعلیم کا آپشن دیا ہے۔
وزیراعظم نے ان خیالات کا اظہار اپنے گذشتہ روز کے دورہ کرناٹک کے دوران کیا جہاں عنقریب الیکشن ہونے والے ہیں۔ زبانوں کی تدوین اور ترویج کے بارے میں وزیراعظم کے یہ تاثرات ایک تلخ حقیقت ہیں۔ ملک کی آزادی کے کئی سال تک ملک میں بولی جارہی کم و بیش ہر زبان بغیر کسی لسانی ، نظریاتی یا فرقہ وارانہ عصبیت کے اپنے اپنے معاشروں اور طبقوں کا حصہ رہی ہے لیکن اچانک ایک مرحلہ نازل کرلیاگیا کہ زبان کے نام پر لسانی جارحیت کا آغاز کردیاگیا۔ اگر چہ آبادی کے کچھ بڑے طبقوں نے اپنی لسانی بُنیاد پر اس جارحیت کی مزاحمت کی اور مرکز کو سہ لسانی فارمولہ اختیار کرنے پر مجبور کردیا لیکن زبانوں کی تدوین اور ترویج کو بادی النظرمیں ہی جو زک پہنچنا تھا وہ پہنچ گیا اور تب سے برابر زبانیں زک بھی اُٹھارہی ہیں اور زبانوں کے نام پر لسانی طبقوں یا معاشروں کو زچ بھی کیاجارہاہے۔
تازہ ترین مثال ابھی ابھی سامنے آئی ہے ۔ زبانوں سے متعلق وزیراعظم نریندرمودی کی آراء اور خیالات کی صدائے باز گشت ابھی سنائی ہی دے رہی تھی اور مختلف معاشرے وزیراعظم کی زبانوں کی ترقی کے حوالہ سے بیان پر اپنی خوشی اور مسرت کا جشن ہی منارہے تھے کہ مہاراشٹر کے نائب وزیراعلیٰ نے اپنی ریاست کے سابق وزیراعلیٰ ادوھو ٹھاکرے پر راست نشانہ سادھتے ہوئے انہیں اس بات کیلئے آڑے ہاتھوں لیا کہ اس کے ایک جلسے میں اردو ؔزبان میں بینر نصب کئے گئے تھے نائب وزیراعلیٰ کا اگر چہ کہنا ہے کہ ’’وہ زبانوں کے تعلق سے متعصب نہیں لیکن جس انداز سے ادھوٹھاکرے نے لوگوں کی خوشنودی کی خاطر اردوؔ کے تعلق سے جو طریقہ اختیار کیا وہ باعث تشویش یا فکرمندی کا موجب ہے۔
معلوم ہے کہ فنڈاوز اور ٹھاکر ے ایک دوسرے کے سیاسی حریف ہیں۔اور دونوں کو یہ آپسی سیاسی رقابت کسی بھی انتہا تک لے جانے کی آزادی بھی حاصل ہے اور اپنی اپنی اس آزادی کو کھل کر کھیلنے کیلئے زمین بھی مہیا ہے لیکن فنڈاوز نے اُردو زبان کو لے کر ٹھاکرے پر جو تیر برسایا ہے وہ درحقیقت ٹھاکرے پر نہیں بلکہ اُردوؔ زبان کو بولنے، پڑھنے ،لکھنے اور سمجھنے والوں پر حملہ آور ہوکر نہ صرف اُردو ؔکے تئیں اپنی لسانی عصبیت کا کھل کر اظہار کیا ہے بلکہ اس زبان کو ہندوستان کی ایک زبان سمجھنے والوں کی بھی دل آزاری کی۔
مہاراشٹر کے نائب وزیراعلیٰ کو غالباًیہ جانکاری نہیں کہ ایک سو چالیس کروڑ کی آبادی والے ہمارے ملک میں کتنی زبانیں بولی جارہی ہیں اور ان زبانوں میں ملک کی کتنی آبادی کی زبان اُردوؔ ہے۔ ان کی اطلاع کیلئے یہ کہنا کافی ہوگا کہ ملک ہندوستان میں جو دس بڑی زبانیں بولی جارہی ہیں ان میں اُردوؔ بھی شامل ہے اور اس کا درجہ ساتواں ہے۔
ہندی زبان میں بات کرنے والی آبادی کی تعداد ۵۲؍ کروڑ ۸۳؍لاکھ ہے، بنگالی بولنے والوں کی تعداد ۹؍ کروڑ ۷۲؍ لاکھ ، مراٹھی بولنے والوں کی آبادی ۸؍ کروڑ ۳۰؍ لاکھ ، تیلگو آبادی کی تعداد ۸؍ کروڑ ۱۱؍لاکھ ، تامل بولنے والوں کی تعداد ۶؍کروڑ ۹۰؍ لاکھ ، گجراتی زبان بولنے والوں کی تعداد ۵؍کروڑ ۵۴؍لاکھ اور اُردو بولنے والوں کی تعداد ۵؍ کروڑ ۷؍لاکھ ہے۔ اکثر انسانی معاشروں، تہذیب وتمدن اور سب سے بڑھ کر انسانوں کے درمیان رشتوں کی اہم ترین بُنیاد بولنے والی زبانوں پر ہی سمجھی جارہی ہے اور انسانوں اور تہذبیوں کے درمیان یہ رشتہ سب سے دلکش اور خوبصورت تصور کیاجاتا ہے ۔ اگر چہ بحیثیت مجموعی ہندوستان میں ۱۲۰؍سے زائد زبانیں بولی جارہی ہیں لیکن جو بڑی دس زبانیں بولی جارہی ہیں ان میں اُردوؔ کا اپنا ایک منفرد مقام اور رتبہ حاصل ہے۔
یہ وہ زبان ہے جس زبان میں ملک نے انگریز سامراج کے خلاف ہر محاذ پر مقابلہ کیا، آزادی کی لڑائی لڑی، یہ وہ زبان ہے جس کا جنم اسی سرزمین میں کئی صدیوں پہلے ہوا، یہ زبان کسی مذہبی فرقے کی ملکیت نہیں اور نہ ہی اس زبان کو کسی مخصوص فرقے باالخصوص کسی مسلمان باپ اور کسی مسلمان ماں نے جنم دیا بلکہ اسے ہندوستانیوں نے جنم دیا ، اس کو پروان چڑھایا اور آج کئی صدیاں گذر جانے کے باوجود بھی حیات ہے۔
البتہ اس زبان کی سب سے بڑی بدقسمتی یہ رہی کہ اس اُردوؔ زبان کو مسلمانوں کی ملکیت قرار دیاگیا، پاکستان بننے پر اسے پاکستان کی زبان ٹھہرایا گیا لیکن وہاں سرحد کے اُس پار بھی پاکستان میں سرکاری زبان ہونے کے باوجود یہ پشتون، پنجابی، سندھی اور بلوچی وغیرہ لسانی عصبیت کے نشانے پر ہے۔
تاہم ہندوستانیوں کو اس بات پر فخر ہے اور ناز بھی کہ سرکاری سطح پر اُردوؔ کی ترویج و ترقی کیلئے مسلسل کوششیں ہورہی ہیں، مخصوص ادارے مرکزی سطح پر بھی اور ریاستوں کی سطح پر بھی قائم کئے گئے ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں اُردوؔ میںاخبارات کی اشاعت ہورہی ہے، آئین کا ترجمہ بھی دوسری زبانوں کی طرح اس اُردوؔ زبان میں بازاروں میں دستیاب ہے۔ جموں وکشمیر کی بات کریں تو اُردوؔ پانچ سرکاری تسلیم شدہ زبانوں میں سے ایک ہے۔ حالانکہ تین سال قبل تک یہ ریاست کی واحد سرکاری زبان رہی جبکہ کشمیر ی اور ڈوگری کو مادری زبانوں کا درجہ حاصل تھا۔
زبان چاہئے اُردو ہے یا ہندی یا اور کوئی زبان نسلی امتیاز، لسانی تعصب اور نظریاتی جنون پھیلانے یا نفرتوں کی دیواریں تعمیر کرنے کیلئے نہیں بلکہ مختلف معاشروں کے درمیان یکجہتی ، ہم آہنگی اور آپسی روابط کو مضبوط ومستحکم بنانے کی سمت میں کلیدی رول رکھتی ہے ۔ لیکن کچھ طبقے لسانی عصبیت میں سراپا ملوث ہیں باالخصوص اُردوؔ کے تعلق سے!