سرینگر/ (ویب ڈیسک)
پراپر ٹی ٹیکس پر اپنی خاموشی کو توڑتے ہوئے جموںکشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر‘ ایل جی سنہا نے پوچھا ہے کہ امیر لوگ خدمات کی ادائیگی کیوں نہیں کر سکتے؟
جمعہ کو جموں میں پردھان منتری فصل بیمہ یوجنا کی اِفتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سنہا نے کہا کہ جموں و کشمیر جیسے چھوٹے مرکز کے زیر انتظام علاقے میں جہاں پانی یا بجلی سے کوئی آمدنی نہیں ہے، برائے نام ہاؤس ٹیکس لگانا شور و غوغا پیدا کرتا ہے۔
ایل جی کاکہنا تھا’’ اگرچہ ہم کسی خدمات کے لیے ادائیگی نہیں کرتے ہیں لیکن مجھے لگتا ہے کہ ہم سب کو اس پر بات کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔
سنہا نے کہا کہ لوگوں کے حقوق کا خیال رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن اگر امیر لوگ خدمات کی ادائیگی نہیں کریں گے تو کیا کیا جا سکتا۔
لیفٹیننٹ گورنر نے کہا’’اگر فون یا ڈیٹا یا ویڈیوز اور گیمز کے لیے پیسے ہیں تو میرے خیال میں ہم سب کو اس پر بات کرنے کی ضرورت ہے کہ آگے کیسے بڑھنا ہے۔ ہمیں راستہ تلاش کرنے کی ضرورت ہے‘‘۔
بتادیں کہ پراپرٹی ٹیکس کو لاگو کرنے کے بعد جموں وکشمیر یوٹی میںبھارتیہ جنتا پارٹی سمیت سبھی سیاسی پارٹیوں نے شدید برہمی کا اظہار کرتے ہوئے فیصلے کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔
بی جے پی کے جموں وکشمیر یونٹ کے صدر رویندر رینا نے یہاں تک کہہ دیا کہ مودی حکومت نے اس ٹیکس کو لاگو نہیں کیا بلکہ ایل جی انتظامیہ نے یہ فیصلہ لیا ہے۔انہوں نے اسے جلد بازی میں لیا گیا فیصلہ قرار دیا ۔
دریں اثنا جموں کشمیر کے چیف سیکرٹری ارون کمار مہتا نے گزشتہ روز تمام ضلع کمشنرز، ایس ایس پیز اور جموں و سرینگر مونسپل کارپوریشنز کے کمشنرز کے ساتھ میٹنگ کی اور افسران کو ہدایت دی کہ وہ یکم اپریل سے عوام سے پراپرٹی ٹیکس جمع کرائے۔
چیف سیکریٹری نے ہدایت دی کہ پراپرٹی ٹیکس کے حوالے سے پیدا ہونے والی غلط معلومات پر متعلقہ افسران و مونسپل کارپوریشنز اور کمیٹز خدشات کو دور کرے جس کے لیے بیداری مہم کا آغاز کیا جائے اور شہروں کو ٹیکس کے متعلق جانکاری دی جائے گی۔
ڈاکٹر مہتا نے البتہ واضح کیا کہ چھوٹے مکان اور چھوٹے تاجر طبقے کو پرا پر ٹی ٹیکس سے مستثنیٰ رکھا جائے گا ۔
چیف سیکرٹری کاکہنا تھاکہ پراپرٹی ٹیکس کی وصولی اَربن سیکٹر کی اِصلاحات کا لازمی حصہ ہے اور ٹیکس کا عدم نفاذ اربن لوکل اِداروں کو خود کفیل بننے سے محروم کر رہا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اربن لوکل باڈیز ( یو ایل بی ) کو اَپنے دائرہ اِختیار میں متعدد شہری خدمات فراہم کرنے کی ضرورت ہے اور انہیں وسائل کی ضرورت ہے۔ اْنہوں نے کہا کہ اِس ٹیکس کے نفاذ سے روزگار کے مواقع پید ہونے کے علاوہ ان اِداروں کی مالی مدد بہتر ہوگی جن سے علاقہ میں عوامی خدمات میں بہتری آئے گی۔